2011 کی احتجاجی لہر کے دوران عرب اشرافیہ کے کروڑوں ڈالر سوئس اکاونٹس میں جمع کرانے کا انکشاف

22 فروری 2022
تحقیقات کے نتائج نے حالیہ پاناما پیپرز اسکینڈل کی طرح ایک بڑا مالی تنازع کھڑا کردیا—تصویر: اسٹیفن ورموتھ بلوم برگ
تحقیقات کے نتائج نے حالیہ پاناما پیپرز اسکینڈل کی طرح ایک بڑا مالی تنازع کھڑا کردیا—تصویر: اسٹیفن ورموتھ بلوم برگ

ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح عرب حکمرانوں نے 2011 میں عرب بہار سے پہلے کریڈٹ سوئس بینک میں کروڑوں ڈالر جمع کرائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'فالس اسپرنگ' کے عنوان سے رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ عرب اشرافیہ کے کریڈٹ سوئس کے ساتھ ان تاریخی بغاوتوں کے موقع پر گہرے تعلقات تھے جنہوں نے مشرق وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

عرب بہار نے عرب اشرافیہ کی بیرون ملک جمع ہونے والی دولت کی بھی غیرمعمولی جانچ پڑتال کی جانب توجہ مبذول کرائی۔

تفتیش کاروں اور صحافیوں کے ایک اشتراک آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے کریڈٹ سوئس بینک سے وابستہ خفیہ بینک اکاؤنٹس کی ایک بڑی تعداد کا پردہ فاش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سوئس اکاؤنٹ لیک میں جنرل ضیاالحق کے انٹیلیجنس سربراہ کا نام بھی شامل

ان کی تحقیقات کے نتائج نے حالیہ پاناما پیپرز اسکینڈل کی طرح کا ایک بڑا مالی تنازع کھڑا کردیا ہے۔

او سی سی آر پی لیک سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مصر، لیبیا، شام، اردن اور دیگر ممالک کی حکومتی شخصیات نے بغاوت سے پہلے اور بعد میں کریڈٹ سوئس میں کروڑوں کی رقم رکھی۔

کریڈٹ سوئس کے صارفین میں عرب دنیا کے سربراہان مملکت، شاہی خاندان، وزرا، خفیہ اداروں کے سربراہان اور حکومت سے منسلک تاجر شامل ہیں۔

مصری صدر حسنی مبارک کے بیٹوں کے 6 اکاؤنٹس تھے، جن میں سے 27 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سوئس فرانک (اس وقت کے 19 کروڑ 75 لاکھ ڈالر) کی رقم والا سب سے زیادہ مالیت والا اکاؤنٹ تھا۔

مزید پڑھیں: سوئس بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس کی صفائی شروع

حسنی مبارک کے سسرال اور کاروباری ساتھیوں کے ایک نیٹ ورک کے پاس بھی عرب بہار سے پہلے اور بعد میں اکاؤنٹس تھے، جن میں لاکھوں سوئس فرانک کے اثاثے تھے۔

ان میں سے کچھ اکاؤنٹس اس وقت بھی کھلے رہے جب ان کے مالکان بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنے والے ہجوم کے ہاتھوں نشانہ بنے یا انہیں پراسیکیوٹرز کے ذریعہ قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2011 میں صرف 3 ہفتوں کے دوران لاکھوں عرب شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ایک ایسے حکمران طبقے کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا جس نے کئی دہائیوں تک دولت جمع کی اور اسے بیرون ملک بھیجا۔

رپورٹ کے مطابق اس سے عرب اشرافیہ خوفزدہ ہوگئے اور انہیں اپنی دولت کھودینے کا خدشہ تھا۔

حسنی مبارک نے فروری میں استعفیٰ دیا اور 30 منٹ کے اندر سوئس حکام نے ان کے اور ان کی حکومت سے منسلک کروڑوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': حکومتوں، ریاستوں کے سربراہان آف شور اثاثوں کے مالک نکلے

کریڈٹ سوئس سے لیک ہونے والے اعداد و شمار سے دولت کے کچھ حصے سے متعلق نئی معلومات ملتی ہے جو حسنی مبارک اور دیگر اشرافیہ نے زیورخ میں قائم بینک میں عرب بہار سے پہلے کے سالوں میں رکھی تھی، اور اس کے بعد اقتدار پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مبارک برادران کے کریڈٹ سوئس میں 6 اکاؤنٹس تھے، علا مبارک کا ایک اکاؤنٹ 1987 کے اوائل میں کھولا گیا تھا جب وہ 27 سال کے تھے۔

دونوں کے ایک اور مشترکہ اکاؤنٹ میں لگ بھگ 27 کروڑ 70 لاکھ سوئس فرانک (اس وقت کے 19 کروڑ 75 لاکھ ڈالر) رقم تھی، جس کی اطلاع پہلے مصری حکام کے بیانات کے ذریعے دی گئی تھی لیکن اس کی کبھی تصدیق نہیں ہوئی۔ لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق کسی بھی دوسرے عرب ملک سے زیادہ مصر کے اکاؤنٹس تھے۔

تاہم ان اکاونٹس کے نصف درجن سے زائد مالکان دیگر ممالک سے تھے جن میں شام، یمن، لیبیا، الجزائر، مراکش اور اردن شامل ہیں جو عرب بہار کے مظاہروں سے متاثر ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں