'نور مقدم' کے قاتل کو موت کی سزا، فیصلے پر انٹرنیٹ صارفین کا اظہار اطمینان

24 فروری 2022
عدالتی فیصلہ سننے کے بعد انٹرنیٹ صارفین جذباتی ہوگئے — فائل فوٹو
عدالتی فیصلہ سننے کے بعد انٹرنیٹ صارفین جذباتی ہوگئے — فائل فوٹو

نور مقدم کے قاتل کو مجرم قرار دیے جانے کے فیصلے کے باعث پاکستانی انٹر صارفین بھی آج راحت کی سانس لے رہے ہیں، ظاہر جعفر کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔

اس فیصلے کے بعد پاکستانیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر اطمینان اور تسلی کا اظہار کیا گیا، انٹرنیٹ پر متحرک رہنے والے پاکستانی شہریوں نے بھی مقتولہ نور مقدم اور ان کے اہل خانہ کو انصاف ملنے کے لیے بہت دعائیں کی تھی۔

27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پوش علاقے سیکٹر ایف 7 میں ظاہر جعفر نے اپنے گھر میں قتل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کے لرزہ خیز قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی گئی

عدالت کی جانب سے سزا کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ قتل کے مرکزی ملزم کو مثالی سزا دی گئی ہے، انہوں نے عدالت کے فیصلے کو عدالت اور انصاف کے لیے فتح قرار دیا۔

فیصلے میں کیس کے دونوں شریک ملزمان و ظاہر جعفر کے گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور تھراپی ورکس کے ملازمین سمیت دیگر تمام افراد کو بری کر دیا گیا۔

عدالتی فیصلہ سننے کے بعد انٹرنیٹ صارفین جذباتی ہوگئے، اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بہت سے شہریوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلے سے نور مقدم تو واپس نہیں آئے گی، لیکن امید ہے کہ سزا کے فیصلے سے مقتولہ کے خاندان کو کچھ سکون ضرور ملے گا جو جولائی 2021 سے انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کومل شاہد نامی شہری نے لکھا کہ 'نور مقدم، ہم آپ کو واپس نہیں لا سکتے لیکن مجھے امید ہے کہ آپ کے والدین آج رات کچھ سکون سے سوئیں گے، مجھے امید ہے کہ انہیں یہ جان کر تھوڑا سکون ملے گا کہ ان کی بیٹی کا قاتل آزادانہ طور پر گھوم نہیں رہا، انصاف مل گیا'۔

ایک اور شہری نے لکھا کہ امید ہے کہ نور مقدم کے خاندان کو اس فیصلے سے کچھ حد تک سکون ملے گا۔

ایک صارف نے کہا کہ نور مقدم کے خاندان نے جس احسن طریقے سے اس کے قتل کو سنبھالا وہ واقعی ناقابل یقین ہے، اس کے یا ان کے بارے میں تمام گھناؤنے تبصروں کے باوجود وہ ایک بار بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔

جس طرح سے نور مقدم کے والد اس کیس کے دوران بغیر جس جرأت اور بہادری کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس طرح کے مثبت مردانہ کردار کی ہمارے ملک کو ضرورت ہے۔

ایک شہری نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میں نہیں جانتی کہ کیا کہوں اور کیا محسوس کروں! میرا جسم کانپ رہا ہے اور میری آنکھوں میں آنسو ہیں، کاش ہم نور مقدم کے لیے کچھ اور بھی کر سکتے، لیکن ہم نے کچھ تو کیا۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ نور مقدم کیس کی خبر سن کر میری انکھوں میں آنسو آرہے ہیں۔

ایک شہری نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اطمینان بخش ہے، یہ فیصلہ ملک میں موجود نور مقدم جیسی کئی خواتین کے لیے امید کی کرن ہے۔

اس فیصلے کے سامنے آنے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین خواتین کے خلاف تشدد کے ردعمل کے بارے میں پرامید نظر آئے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

کچھ صارفین نے عدالت کی جانب سے نور مقدم کے قاتل کو موت کی سزا کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے ہوئے خوب سراہا۔

شہریوں کا فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ انصاف کی فتح ہے اور اس سے نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔

صارفین نے نور مقدم کے خاندان، خاص طور پر نور کے والد شوکت مقدم کی تعریف کی۔

اپنے پیغامات میں ٹوئٹر صارفین کا کہنا تھا کہ جس احسن طریقے سے نور مقدم کے خاندان نے اور خاص طور پر شوکت مقدم نے اس تمام صورت حال کو سنبھالا اور کبھی بھی کسی قسم تبصرے، تجزیے اور بیان کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا وہ قابل تعریف ہے۔

نور مقدم کے قتل کی خبر آنے کے بعد سے ہی پورے ملک میں صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی اور تمام شہریوں کی نظریں اس کیس پر لگی ہوئی تھیں، عوام نے نور مقدم کے قاتل کو سزا دلانے کے لیے آواز اٹھانا بند نہیں کی اور عزم کیے رکھا کہ وہ کبھی نہیں بھولیں گے اور جب تک قاتل کو سزا نہیں مل جاتی اس وقت تک لڑنا نہیں چھوڑیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں سابق پاکستانی سفارتکار کی بیٹی قتل

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل تھے۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور ٹرائل 4 ماہ 8 روز جاری رہا جس کے دوران 19 ملزمان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

اس دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی بیمار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں