مہاجرین کیلئے سخت گیر یورپی ممالک کا یوکرینی پناہ گزینوں کا پرتپاک استقبال

اپ ڈیٹ 28 فروری 2022
شام سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی  کا کہنا ہےیورپی رہنماؤں کے بیان بیان ’نسل پرستی اور اسلام فوبیا‘ پر مبنی ہے— فوٹو: اے پی
شام سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہےیورپی رہنماؤں کے بیان بیان ’نسل پرستی اور اسلام فوبیا‘ پر مبنی ہے— فوٹو: اے پی

بچوں کو ہاتھوں میں تھامے اپنے خاندانوں کے ہمراہ یوکرین سے پڑوسی ممالک میں ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کو پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، مالدووا کے رہنماؤں کی جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ان ممالک کی مہمان نوازی قابل تعریف ہے لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور خاص طور پر 2015 میں شام سے ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کے ساتھ یورپی ممالک کا رویہ بالکل مختلف ہے۔

ان میں سے کچھ مہاجرین کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے انہیں پریشان کیا جارہا ہے جس سے ان کی شدید دل آزاری ہوئی ہے۔

بلغاریہ کے صدر رومن رادف نے گزشتہ ہفتے میڈیا سےگفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ مہاجرین نہیں ہیں، یہ یورپی شہری ہیں‘۔

مزید پڑھیں: یوکرین کی سرحدوں کے قریب ڈیڑھ لاکھ روسی فوجی تعینات ہیں، یورپی یونین

انہوں نے کہا کہ ’یوکرینی شہری ذہین اور تعلیم یافتہ ہے، یہ پناہ گزین نہیں ہیں جن کے بارے میں ہم غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، جن کی شناخت کے حوالے سے ہم متذبذب تھے، یا جن کے ماضی کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔

شام سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عقبہ محمد کا کہنا ہے یہ بیان ’نسل پرستی اور اسلام فوبیا‘ پر مبنی ہے۔

محمد عقبہ 2018 میں اپنے آبائی علاقے درعا سے آئے تھے جو اب اسپین میں مقیم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ دومن رادف اوردیگر رہنماؤں کے بیان پر بالکل حیرت زدہ نہیں ہیں۔

عقبہ نے یورپی ممالک کو اس رویے کا عادی قرار دیتے ہوئے اپنا ماضی دہرایا اور کہا کہ وہ بھی اپنی زندگی بچانے اور پناہ کی تلاش اور اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ’پناہ گزین، پناہ گزین ہے چاہے وہ یورپ سے ہو افریقہ سے ہو یا ایشیا سےہو‘۔

مزید پڑھیں: یوکرینی صدر کی روس کے خلاف مزاحمت میں غیر ملکیوں سے مدد کی اپیل

ان کا کہنا تھا کہ جب یوکرین کی بات آئی توپناہ گزینوں کے مخالف رہنماؤں نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے، ’پناہ گزینوں کو ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے سے، ان سب کو آنے دیا جائے کا مؤقف اختیار کرلیا‘۔

اس سلسلے میں نہ صرف سیاستدان بلکہ صحافیوں کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ ’یوکرین سے آنے والے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی طرح پناہ گزین نہیں ہیں بلکہ یہ یورپی خاندانوں کی طرح ہیں جو اب اپنے پڑوس میں واقع گھروں میں رہیں گے‘۔

یہ بات الجزیرہ انگلش ٹیلی ویژن کے ایک نمائندہ نے کہی تھی، تاہم بعدازاں چینل نے معافی نامہ جاری کرتے ہوئے صحافی کے اس تبصرے کو بے حس اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔

2015 میں شام، عراق اور افغانستان جنگ کے باعث لوگوں نے پناہ کی تلاش میں یورپ رخ کیا تھا توان کے ساتھ ان کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل اور سویڈن کے وزیر اعظم نے اپنے شہریوں سے پناہ گزینوں کو دل کھول کر خیر مقدم کرنے کی اپیل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملے کا خدشہ، تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے قریب جا پہنچی

تاہم یوکرین کے شہریوں کو خیر مقدم کرنے کا سلسلہ یورپی یونین کے بیان کے بعد ختم ہوگیا جب یورپی ممالک نے یوکرین کی ذمہ داریوں سے انکار کیا، اس موقع پر وسطی اور مشرقی یورپی ملک ہنگری نے سب سے پہلے پناہ گزینوں سے ہاتھ اٹھایا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے سابق پالیسی سربراہ کرسپ نے پناہ گزینوں کےساتھ نسل پرستی اور مذہبی انتہا پسندی سےمتاثر رویے کی تصدیق کی، دیگر کی طرح انہوں نے بھی دوہرے معیار پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک فطری عمل ہے کہ لوگ آس پاس سے آنے والے ایسے شہریوں جو (ایک جیسی) زبان بولتے ہیں یا (ایک جیسی) ثقافت رکھتے ہیں ان کے ساتھ زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں‘۔

دوسری جانب بھارت سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے پولینڈ کو نا قابل رہائش قرار دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں