'کالا دھن سفید کرنے' والوں کیلئے ایک اور پیکج جاری

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2022
پیکج کے تحت سرمایہ کار نئی کمپنی بنا کر نئے صنعتی یونٹس قائم کرنے کا ذمہ دار ہو گا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
پیکج کے تحت سرمایہ کار نئی کمپنی بنا کر نئے صنعتی یونٹس قائم کرنے کا ذمہ دار ہو گا—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

پاکستان کی ترقی کے لیے صنعت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک صنعتی 'ایمنسٹی' پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت سرمایہ اپنا پیسہ صنعتوں میں لگاسکیں گے اور ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے یہ اعلان ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں ڈرامائی کمی کے اعلان کے ایک روز بعد لاہور میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ان کی پارٹی کو اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا کام کرنا چاہیے تھا۔

تاہم جب کہ پاکستان تحریک انصاف فخریہ اپنے آپ کو احتساب اور شفافیت پر توجہ مرکوز رکھنے والی جماعت کہتی ہے، ایسے میں یہ ان افرادکے لیے تیسرا ایمنسٹی پیکج ہوگا جو اپنی ناجائز دولت کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ملک سبزیاں،گندم کی برآمدات سے ترقی نہیں کرسکتا، صنعتکاری کو فروغ دینا ہوگا، وزیراعظم

اس حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے شروع میں صنعت کاری بالخصوص برآمدتی صنعت پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن میں اب دیکھ رہا ہوں کہ ہم نے جو عام معافی دی, ہمیں کھلی عام معافی نہیں دینا چاہیے تھی، ہمیں اسے صنعت کی جانب لے جانا چاہیے تھا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ’انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2022 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کا آرڈیننس‘ کے عنوان سے صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے لیے ارسال کردہ سمری کے مطابق پیکج سرمایہ کاروں کو مجموعی رقم پر 5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں ذرائع آمدن نہ ظاہر کرنے کی چھوٹ دے گا۔

پیکج کے تحت سرمایہ کار نئی کمپنی بنا کر نئے صنعتی یونٹس قائم کرنے کا ذمہ دار ہو گا، اسی طرح کاروباری برادری بھی اپنی موجودہ صنعت کو متوازن یا جدید بنانے کے لیے اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

مذکورہ سمری کی منگل کے روز وفاقی کابینہ نے منظوری دی۔

مزید پڑھیں:حکومت نے پہلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروادی

حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کیا اس نے اس اقدام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تفصیل سے بات اور اعلان کرنے سے پہلے ان کی منظوری حاصل کرلی۔

صنعتی پیکیج کی ضرورت کا جواز اور آرڈیننس کے نفاذ کی وجہ بتاتے ہوئے سمری میں وضاحت کی گئی ہے کہ اکثر ٹیکس سسٹمز میں مختلف صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا عام ہے۔

مزید کہا گیا کہ ملک نے خصوصی اقتصادی، برآمدی پروسیسنگ اور خصوصی ٹیکنالوجی زونز کے ذریعے صنعتی شعبے کو بھی ٹیکس مراعات بھی فراہم کی ہیں۔

اس میں پاکستان کے تمام علاقوں کے لیے یکساں فوائد کی ضرورت پر مزید زور دیا گیا اور یہ تصور کیا گیا کہ کاروباری افراد روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور لاغر صنعتی اکائیوں کو بحال کرنے کے لیے اپنے غیر ظاہر شدہ اثاثوں سے صنعتی اداروں میں سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی اسکیم کے بعد کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، وزیراعظم

ساتھ ہی یہ پیکج غیر مقیم اور مقیم پاکستانی افراد کو اپنا زرمبادلہ ملک میں واپس بھیجنے اور صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

سمری میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ معاملہ 25 جنوری کو وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں زیر بحث آیا۔

مذکورہ پیکج کی اسی روز اصولی منظوری دے دی گئی تھی، جس میں نئے اور موجودہ صنعتی اداروں ، لاغر یونٹس کی بحالی کے ساتھ مقیم اور غیر مقیم پاکستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری پر مختلف مراعات شامل ہیں۔

"اس طرح کے ڈیکلریشن فائل کرنے کی حتمی تاریخ 31 دسمبر 2022 ہوگی اس شرط کے ساتھ کہ وہ 30 جون 2024 تک نئے یونٹ سے کمرشل پروڈکشن شروع کردیں۔

مزید پڑھیں:تعمیراتی شعبے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی میں توسیع کردی گئی

پیکج کے تحت وہ کمپنیاں جو پچھلے 3 برسوں سے خالصتاً خسارے میں ہیں انہیں ایک صحت مند منافع کمانے والی کمپنی (انضمام نہیں) حاصل کرنے کی اہل ہو گی، جسے اگلے 3 برس تک خسارے والی کمپنی کے ٹیکس نقصانات کو ایڈجسٹ کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔

پیکج کے تحت اگر اہل غیر مقیم اور مقیم پاکستانی افراد اپنے ظاہر کردہ غیر ملکی اثاثوں کو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں واپس بھیجتے ہیں، تو وہ آئندہ 5 برسوں کے لیے 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کے حقدار ہوں گے۔

نئی ایمنسٹی اسکیم سیاسی حربہ ہے، ماہر معیشت

مذکورہ پیکج پر تبصرہ کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ڈاکٹر ساجد امین جاوید کا کہنا تھا کہ صنعت کے لیے جاری ایمنسٹی اسکیم کا بھی وہی حشر ہوگا ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی پہلے جاری کردہ اسکیمز کا ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اسے معیشت کے لیے بہتر نہیں دیکھتاکیوں کہ عموماً پاکستانی عوام سوچتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور ایمنسٹی اسکیم آجائے گی اس لیے بہت معمولی ٹیکس ریٹ کے باوجود وہ اس میں شمولیت اختیار نہیں کرتے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانکے مقابلے میں بھارت، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں ایسی اسکیمز بہت کم دی جاتی ہیں کیوں کہ انہوں نے کامیابی سے اپنے نظام کو مضبوط اور معیشت کو دستاویزی بنالیا ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں اس پیکج کو سیاسی حربہ سمجھتا ہوں، اس سے زیادہ کچھ نہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں