روس پر پابندیوں میں شامل نہیں ہوں گے، چین

02 مارچ 2022
چائنا بینکنگ اینڈ انشورنس ریگیولیٹر کمیشن کے چیئرمین گیو شکنگ نے نیوز کانفرنس کی—فائل/فوٹو:رائٹرز
چائنا بینکنگ اینڈ انشورنس ریگیولیٹر کمیشن کے چیئرمین گیو شکنگ نے نیوز کانفرنس کی—فائل/فوٹو:رائٹرز

چین نے مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں میں شامل نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چین پر اس کے اثرات محدود ہوں گے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چین کے بینکنگ ریگیولیٹر نے کہا کہ روس پر لگنے والی پابندیوں کا ہم حصہ نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں: یوکرین حملہ: امریکا، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کی روس پر سخت پابندیاں

قبل ازیں چین نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کیا تھا اور پابندیوں کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ غیرقانونی اور یک طرفہ پابندیاں ہیں۔

چائنا بینکنگ اینڈ انشورنس ریگیولیٹر کمیشن کے چیئرمین گیو شکنگ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ ‘جہاں تک مالی پابندیوں کا معاملہ ہے، ہم ان کی توثیق نہیں کرتے، خاص طور پر یک طرفہ شروع کی گئی پابندیوں کی کیونکہ یہ بہتر نہیں ہوگا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم اس طرح کی پابندیوں میں شامل نہیں ہوں گے، ہم متعلقہ فریقین کے ساتھ معمول کے مطابق معاشی اور تجارتی تبادلے جاری رکھیں گے’۔

خیال رہے کہ چین اور روس خاص کر حالیہ برسوں میں تجارتی شراکت داری سمیت تعلقات میں بہت قریب آئے ہیں۔

چین کے کسٹمز ڈیٹا کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں گزشتہ برس 35.9 فیصد اضافہ ہوا اور ریکارڈ 146.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

روس کے ساتھ چین کی تجارت میں تیل، گیس، کوئلہ، زرعی اجناس اہم مصنوعات ہیں۔

گیو شکنگ نے کہا کہ ‘ان پابندیوں سے چین کی معیشت اور مالی شعبے پر اثرات اب تک خاص نہیں ہیں’۔

چین کی معیشت اور مالی شعبے کی مضبوطی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘مستقبل میں مجموعی طور پر اس کا چین پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا’۔

یاد رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکا، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے روس پر سخت پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔

رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ یہ پابندیاں روس کو عالمی مارکیٹ میں اہم کرنسیوں میں کاروبار کرنے کی صلاحیت سے محروم کرتی ہیں اور ساتھ ہی روسی بینکوں اور سرکاری اداروں کے خلاف بھی پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔

پابندیوں میں روس کے 2 بڑے بینکوں کو نشانہ بنایا گیا، جو امریکی ڈالر میں لین دین نہیں کرسکیں گے، اسی طرح ریاستی توانائی کی بڑی کمپنی 'گیزپورم' اور دیگر بڑی کمپنیاں مغربی منڈیوں میں فنانسگ نہیں کر سکیں گی۔

مغربی اتحادی ممالک نے روس کی ہائی ٹیک اشیا پر برآمدی کنٹرول نافذ کر دیا ہے، جس کا مقصد روس کے دفاع اور ایرو اسپیس سیکٹر کو تباہ کرنا ہے، جب کہ واشنگٹن نے پابندیوں کی فہرست میں شامل روسی کمپنیوں میں مزید نام شامل کیے۔

مزید پڑھیں: روس کا یوکرین پر حملہ: عالمی رہنماؤں کا اظہار مذمت، پابندیوں کا انتباہ

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ یہ پابندیاں روس پر طویل مدتی اثر ڈالنے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن اس کے علاوہ مزید کچھ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

روس پر ان پابندیوں کا مقصد اس کو ڈالر، یورو، پاؤنڈ اور ین میں کاروبار کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔

پابندیوں کا ہدف روس کے 5بڑے بینک ہیں، جن میں ریاستی حمایت یافتہ سبر بینک اور وی ٹی بی بینک کے ساتھ ساتھ روسی اشرافیہ کے ارکان اور ان کے خاندان بھی شامل ہیں۔

روس کا سب سے بڑا قرض دہندہ سبربینک اب امریکی بینکوں کی مدد سے رقم منتقل نہیں کر سکے گا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے برسلز میں منعقدہ اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پابندیوں کا ہدف مالیاتی شعبے، توانائی، ٹرانسپورٹ اور روسی اشرافیہ کے ویزے ہیں۔

ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا تھا کہ یہ اقدامات روس کے لیے اپنی آئل ریفائنریوں کو اپ گریڈ کرنے یا ہوائی جہاز کے اسپیئر پارٹس کے لیے ٹیکنالوجی خریدنا ناممکن بنا دیں گے۔

نیوزی لینڈ نے بھی روسی حکومت کے اہلکاروں پر سفری پابندی عائد کر نے کے علاوہ روس کے ساتھ وزارت خارجہ کی دو طرفہ مشاورت معطل کر دی جبکہ روسی فوج اور سکیورٹی فورسز کو سامان کی برآمد بھی روک دی گئی ہے۔

برطانیہ کی جانب سے روس پر نئی پابندیوں کے تحت بڑے روسی بینکوں کو برطانیہ کے مالیاتی نظام سے خارج کر دیا جائے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 02, 2022 09:41pm
امریکہ اور یورپ مل کر دنیا پر اپنی حاکمیت کو بچانے کی کوشش کر رہے ۔ ان کو کوئی غرض نہیں اس سے باقی ترقی پذیر ممالک کا کتنا بھی جانی اور مالی نقصان ہو جائے۔ یوکرین کی جنگ کو روکا جاسکتا ، لیکن امریکہ اور یورپ میں خاص کر برطانیہ کی نفسیات اس حالت پر پہنچ چکی ہیں کہ ہر مسئلہ کو جنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔