اسحٰق ڈار کا ویڈیولنک کے ذریعے سینیٹ رکنیت کا حلف لینے کیلئے عدالت سے رجوع

05 مارچ 2022
چیئرمین سینیٹ نے اسحٰق ڈار کی درخواست مسترد کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
چیئرمین سینیٹ نے اسحٰق ڈار کی درخواست مسترد کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے ویڈیو لنک کے ذریعے سینیٹ کی رکنیت کا حلف لینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

لاہور ہائی کورٹ میں اسحٰق ڈار نے سینئر وکیل سلمان بٹ کی توسط سے درخواست دائر کردی، جس میں وفاقی حکومت، چیئرمین سینیٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ سے ورچوئلی بطور سینیٹر حلف اٹھانے کیلئے تیار ہوں، اسحٰق ڈار

سابق وزیر خزانہ نے مؤقف اپنایا کہ سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے خلاف مقدمے کی وجہ سے حلف نہیں لے سکا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بعد ازاں 21 دسمبر 2021 کو کامیابی کے خلاف دائر اپیل خارج کی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 10 جنوری 2022 کو کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار علاج کی غرض سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور دوران علاج حلف لینے کے لیے واپس ملک آنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے پاس کسی رکن کا حلف لینے کے لیے کسی کو بھی نامزد کرنے کا آئینی اختیار ہے اور ویڈیو لنک کے ذریعے حلف لینے کے لیے بھی چیئرمین سینیٹ کو خط لکھا جس کو بلاجواز مسترد کردیا گیا۔

اسحٰق ڈار نے درخواست میں کہا کہ کورونا وبا کے سبب دنیا بھر کی پارلیمان کے سیشنز ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ نے اسحٰق ڈار کی ورچوئل حلف لینے کی درخواست مسترد کردی

حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے انتخابی ترمیمی آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار کو حلف لینے سے روکنے کے لیے قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ منتخب اراکین پارلیمان کو مقررہ مدت میں حلف لینے کا پابند بنانے کے لیے ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جبکہ اراکین پارلیمان کو مقررہ مدت میں حلف لینے کا پابند کرنے کا قانون بھی عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

سابق وزیرخزانہ کی جانب سے وکلا کے ذریعے دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اراکین پارلیمان کو مقررہ مدت میں حلف لینے کے لیے پابند کرنے کے ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق اسحٰق ڈار پر کرنے سے روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا ویڈیو لنک کے ذریعے حلف نہ لینے کا فیصلہ غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو حلف لینے کے لیے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا نمائندہ مقرر کرنے اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ویڈیو لنک پر بطور سینیٹر حلف لینے کے لیے انتظامات کرنے کا حکم دیا جائے۔

عدالت سے مزید استدعا کی گئی ہے کہ درخواست پر حتمی فیصلے تک اسحٰق ڈار کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے بھی روکا جائے۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کی سینیٹ کی نشست خالی قرار دی جائے، قائد ایوان

یاد رہے کہ اسحٰق ڈار نے 2 فروری کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو خط لکھ کر مؤقف اپنایا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 255 (2) کے تحت فراہم کردہ طریقہ کار کے ذریعے سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ آئین کے مطابق وہ طویل علالت اور جاری طبی علاج کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے 10 جنوری 2022 کو میری سینیٹ نشست پر کامیابی کو معطل کرنے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ قانونی رکاوٹیں دور ہونے کے بعد بطور منتخب سینیٹر حلف اٹھانے کے لیے تیار ہوں، برطانیہ میں زیر علاج ہونے کے سبب فی الحال ذاتی طور پر آنے سے قاصر ہوں لہٰذا ورچوئل/ویڈیو لنک کے ذریعے حلف لیا جائے۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے 22 فروری کو اسحٰق ڈار کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے حلف نہیں لیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا تھا کہ رکنیت کا حلف لینے کے لیے خود ایوان میں حاضر ہونا پڑے گا، سینیٹ کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور اسحٰق ڈار کا ویڈیو لنک کے ذریعے حلف نہیں لیا جاسکتا۔

انہوں نے خط کے متن میں تحریر کیا تھا کہ ہائی کمشنر لندن کے ذریعے حلف لینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

پس منظر

خیال رہے کہ اسحٰق ڈار 3 مارچ 2018 کو منعقدہ سینیٹ انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، اس کے فوری بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان کی جیت کا اعلان کیا تھا۔

تاہم سینیٹ انتخابات سے قبل اسحٰق ڈار کی نامزدگی لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کردی گئی تھی، جسے بعد میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔

ان کے انتخاب کے بعد حریف امیدوار پی ٹی آئی کے نوازش علی پیرزادہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے بار بار سمن جاری کرنے کے باوجود پیش نہ ہونے پر 8 مئی 2018 کو ای سی پی کی جانب سے جاری اسحٰق ڈار کی جیت کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال کردی

تاہم گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے مقدمہ نہ چلانے کی اپیل کو خارج کر دیا، لہٰذا ای سی پی کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے حق میں کسی بھی نوٹی فکیشن کے اجرا کے خلاف عدالت کا 2018 کا حکم امتناع خارج کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ای سی پی نے 10 جنوری کو اسحٰق ڈار کی بطور سینیٹر جیت کا نوٹی فکیشن بحال کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ اسحٰق ڈار اکتوبر 2017 میں علاج کے لیے اس وقت لندن چلے گئے تھے جب احتساب عدالت ان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بدعنوانی کے ریفرنس کی سماعت کر رہی تھی۔

ان پر 83 کروڑ 17 لاکھ روپے کے اثاثے بنانے کا الزام تھا جو کہ نیب کی جانب سے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہے، انہیں 21 نومبر 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مفرور قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: اسحٰق ڈار کی سینیٹ رکنیت عبوری طور پر معطل

اس سے قبل عدالت نے اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) والے اکاؤنٹ کے علاوہ ان کے دیگر اثاثوں، جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور پاکستان اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو منجمد کرنے کی توثیق کی تھی۔

انہیں 11 دسمبر 2017 کو ایک کھرب 20 ارب روپے مالیت کے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بھی مفرور قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں