’حکومت، اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تعاون نہیں کر رہی‘

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2022
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ حکومت کے متعلقہ محکموں نے الیکشن کے حوالے سے ہونے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ حکومت کے متعلقہ محکموں نے الیکشن کے حوالے سے ہونے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کو آگاہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تعاون نہیں کر رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای سی پی کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا عمل تعطل کا شکار ہے کیونکہ وفاقی حکومت اور نہ ہی متعلقہ ادارے انتخابات میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے متعلقہ محکموں نے الیکشن کے حوالے سے ہونے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کی مقامی حکومت کے آرڈیننس کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

وفاقی حکومت کے قانونی افسر اور درخواست گزار ای سی پی کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری

جج نے صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے 120 ایام کے بعد انتخابات کے جواز کا سوال اٹھایا۔

درخواست گزاروں میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے مزدور یونین اور سی ڈی اے افسر یونین اور یونین کونسل کے سابق چیئرمین بھی شامل ہیں۔

عدالتی ہدایات کی تکمیل کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

سماعت کے دوران سی ڈی اے مزدور یونین کے وکیل کاشف ملک نے نشاندہی کی کہ سی ڈی اے بورڈ کو اس آرڈیننس کے ذریعے دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے جو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد ختم ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے روک دیا گیا

انہوں نے دلیل دی کہ مختلف شہری تنظیموں کے میونسپل کارپوریشن اسلام آباد ( ایم سی آئی) میں تبادلے کے لیے فراہم کیے جانے والے آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ’پلاننگ ونگ، چیئرمین سیکریٹریٹ اور اسٹیٹ ونگ کے علاوہ سی ڈی اے کے تمام ونگ کا تبادلہ ایم سی آئی میں کردیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس کے نتیجے میں سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 11 کے تحت ماسٹر پلان تیار کرنے کے لیے سی ڈی اے کے مینڈیٹ کو اسلام آباد کی مقامی حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے‘۔

وکیل کے مطابق سی ڈی اے کو کچھ اختیارات حاصل ہیں جن میں اراضی کا حصول، ترقیاتی کام شروع کرنا اور ریونیو کے فرائض سرانجام دینا شامل ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ سی ڈی اے بورڈ 6 اراکین پر مشتمل ہے جس میں منصوبہ بندی، مالیاتی امور، انتظامی امور، اسٹیٹ، ماحولیات اور انجینئرنگ کے لیے ایک ایک چیئرمین ہے۔

علاوہ ازیں اتھارٹی کے کام کو سی ڈی اے کے قوانین 1985کے پیش نظر مختلف ڈائریکٹوریٹ میں تقسیم کیا گیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 3 مارچ 2021 کو نافذ العمل ہونے والے سی ڈی اے آرڈیننس کے بعد سی ڈی اے بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کو مطلع کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیاتی انتخابات میں تاخیر: الیکشن کمیشن نے سندھ کے اعلیٰ حکام کو طلب کر لیا

انہوں نے مزید کہا کہ صدر نے حال ہی میں اسلام آباد بلدیاتی حکومت سے متعلق آرڈیننس 2021 جاری کیا ہے جو سی ڈی اے آرڈیننس سے مطابقت نہیں رکھا اور معلوم ہوتا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے مؤخرالذکر دفعات کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سی ڈی اے افسران ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ آرڈیننس ایسی قانون سازی ہے جو ان صوبوں کے لیے سنگین نتائج کا سبب ہوگی جن کے وسائل دارالحکومت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی، اثاثوں، مالیاتی امور، ملازمت سمیت وفاقی حکومت کے تمام شعبہ جات سے متعلق پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے اور حقیقت میں ایسا نہیں کیا گیا جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے دلیل دی کہ اس کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 89 کے مینڈیٹ سے زیادہ ہے جس کا دائرہ کار ہنگامی قانون سازی تک محدود ہے۔  

تبصرے (0) بند ہیں