علیم خان، جہانگیر ترین گروپ مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے میں تاحال ناکام

اپ ڈیٹ 13 مارچ 2022
دونوں گروپوں کے درمیان ملاقات میں رہنماؤں نے پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے پر توجہ مرکوز رکھنے کا مشورہ دیا—فوٹو: ڈان نیوز
دونوں گروپوں کے درمیان ملاقات میں رہنماؤں نے پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے پر توجہ مرکوز رکھنے کا مشورہ دیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رہنما علیم خان کی لندن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے ملاقات کے ایک روز بعد جہانگیر ترین گروپ کے ناراض اراکین غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے ان سے ملنے جا پہنچے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں گروپوں کے درمیان ملاقات اس پس منظر میں ہوئی جب علیم خان، جہانگیر ترین کی عیادت کے بغیر لندن سے واپس آ گئے اور ترین گروپ کے ارکان نے کہا کہ وہ علیم خان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔

ترین گروپ کے مرکزی رہنماؤں سعید اکبر نوانی اور عون چوہدری نے علیم خان سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی اور حکمران جماعت پی ٹی آئی میں دونوں گروپوں کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔

دورہ کرنے والے رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ دونوں گروپوں کو پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جس نے مرکز اور پنجاب میں اپنے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے سینئر رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے وزیراعظم متحرک

ذرائع نے بتایا کہ علیم خان گروپ، جو ابھی تک اپنے ٹھوس نمبروں کے ساتھ منظر عام پر نہیں آیا ہے، علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار کے طور پر قبول کرنے سے انکار کیے جانے پر ترین گروپ سے ناراض ہے۔

علیم خان گروپ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ترین گروپ کی جانب سے فوری رابطہ علیم خان کی ناراضگی اور ان کی لندن میں جہانگیر ترین سے ملاقات نہ کرنے کے دانستہ اقدام کا نتیجہ ہے۔

7 مارچ کو جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر جانے سے پہلے علیم خان نے پی ٹی آئی کے وزرا اور ایم پی ایز کے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا اور انہیں اپنی طاقت قرار دیا تھا۔

تاہم متعدد وزرا اور ایم پی ایز نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو معزول کرنے کی کوشش میں علیم خان کا ساتھ دینے سے فوری طور پر انکار کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: علیم خان، جہانگیر ترین سے ملاقات کیلئے لندن روانہ

علیم خان نے ابھی تک اپوزیشن، پی ٹی آئی گروپوں یا حکمران جماعت کے اتحادیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے اپنے گروپ کے نمبر نہیں ظاہر کیے۔

علیم خان کیمپ میں موجود ایک اور ذرائع نے کہا کہ ہم مناسب وقت پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔

موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی علیم خان انہیں نظر انداز کیے جانے اور ’پیرا شوٹر‘ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ منتخب کرنے پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

انہیں آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ قومی احتساب بیورو کے عتاب کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی کے اندر موجود ان کے 'مخالفین' کے کہنے پر بنایا گیا ہے۔

عثمان بزدار بھی متحرک

ترین گروپ نے (کل) پیر کو اپنی میٹنگ طے کی ہے، دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی جانب سے پی ٹی آئی کے تمام ایم پی ایز کا ساتھ برقرار رکھنے کا ٹاسک سونپے جانے کے بعد پارٹی کی طاقت ظاہر کرنے کے لیے صوبائی وزرا اور ایم پی ایز کے ساتھ ملاقاتیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

وزیراعلیٰ آفس کے مطابق عثمان بزدار سے 30 سے زائد ایم پی ایز نے ملاقات کی اور ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، ایم پی ایز نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے اظہر عباس چانڈیہ، پی ٹی آئی کے ایم پی اے اشرف خان رند، سردار منصور علی خان، میاں علمدار عباس قریشی، نیاز حسین خان، عون حمید، غزین عباسی، سمیع اللہ چوہدری، ندیم قریشی، آصف مجید، لطیف انذر، سردار فاروق امان اللہ دریشک، سردار اویس دریشک، عبدالرحمن خان، چوہدری عادل پرویز گجر، گلریز افضل گوندل، عمر فاروق، رانا شہباز احمد، احسن سلیم بریار اور میاں فرخ ممتاز مانیکا شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علیم خان کی دھمکی، عثمان بزدار بھی حرکت میں آگئے

وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں پی ٹی آئی رہنما سلیم بریار، طاہر بشیر چیمہ اور سید عباس علی شاہ بھی شامل ہیں۔

حکومت، جہانگیر ترین یا علیم خان کی حمایت ظاہر کرنے والے مختلف وزرا اور ایم پی ایز کو واپس لانے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت ترین گروپ کے سینئر رکن اجمل چیمہ کے کاروبار کے خلاف پولیس کارروائی کے ذریعے دباؤ کے حربے بھی استعمال کر رہی ہے اور ایم پی اے خرم لغاری کو ان کے خلاف مقدمات بھی یاد دلا رہی ہے۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ق) کی مزاج میں بھی تلخی آچکی ہے کیونکہ اسے ابھی تک پی ٹی آئی یا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی قابل قبول پیشکش نہیں ملی۔

اب (ق) لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت پر اتحادیوں کے ساتھ مسائل حل کرنے میں ناکامی پر سخت تبصرہ کیا جارہا ہے۔

مسلم لیگ (ق) کا مطالبہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں