اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2022
پاکستانی مندوب منیراکرم نے قرارداد پیش کی—فوٹو: اے پی پی
پاکستانی مندوب منیراکرم نے قرارداد پیش کی—فوٹو: اے پی پی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کے لیے اسلامی تعاون تنطیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔

سرکاری خبرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی سطح پر تحمل اور امن کے کلچر کو فروغ دینے کے مقصد کے طور پر 15 مارچ کو متفقہ طور پر عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دینے کی منظوری دی گئی۔

مزید پڑھیں: او آئی سی کا اسلاموفوبیا سے نمٹنے، کشمیر کی خودمختاری کی حمایت کا اعادہ

رپورٹ کے مطابق قرار داد او آئی سی کے 57 رکن ممالک کے ساتھ ساتھ چین اور روس سمیت دیگر 8 ممالک کی حمایت سے پیش کی گئی تھی۔

—فوٹو: اے پی پی
—فوٹو: اے پی پی

قرارداد میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں پر ہر قسم کے تشدد کے عمل اور عبادت گاہوں، مزاروں سمیت مذہبی مقامات پر اس طرح کے عمل کو سخت سے ناپسند کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ ‘اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے’ اور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین نے نشان دہی کی کہ یہ فینومینا بڑھ رہا ہے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آج کی قرارداد میں تمام رکن ممالک، اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں، دیگر علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی، نجی شعبہ اور مذہبی تنظیموں کو مناسب انداز میں عالمی سطح پر یہ دن منانے کی دعوت دی گئی ہے۔

قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد کئی ممالک نے اس کو سراہا لیکن بھارت، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا کہ دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت موجود ہے لیکن صرف اسلام کو الگ کر کے پیش کیا گیا اور دیگر کو خارج کردیا گیا ہے۔

بھارتی سفیر ٹی ایس تریمورتی نے شکایت کی کہ قرارداد میں ہندو مخالف فوبیا سمیت دیگر مذاہب کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی آزادیِ اظہار کی آڑ میں 'اسلاموفوبیا مہم' کی شدید مذمت

پاکستانی سفیر منیر اکرم نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اسلاموفوبیا کے نتائج نفرت انگیز تقریر، امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور کمیونیٹیز کے ساتھ تفریق، دشمنی اور تشدد جیسے اقدامات ان کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور ان کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جارہی ہے۔

منیراکرم نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے مذہبی آزادی کی نائن الیون دہشت گردی کے حملوں کے بعد مسلمانوں پر چھائے ہوئے خوف اور مسلمانوں کے ساتھ تشدد پر مبنی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تقسیم، خوف اور بداعتمادی کے ماحول میں مسلمانوں کو اکثر توہین، منفی سوچ اور شرم کا احساس ہوتا ہے اور ایک اقلیت کے اقدامات کو بطور مجموعی زبردستی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا اس وقت پھیلاؤ کی رفتار اور بے قابو ہونے والی دونوں صورتوں میں خطرناک ہوگیا ہے اور زینوفوبیا، منفی شناخت اور مسلمانوں کو روایتی سوچ کے ذریعے تقسیم کرنا بھی نسل پرستی ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور ہورہی ہے، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف آف لائن اور آن لائن دونوں حالتوں میں نفرت انگیز جرم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم، شہریت، امیگریشن، روزگار، ہاؤسنگ اور صحت سمیت تمام دستاویزی شعبوں میں امتیازی سلوک بڑھ رہا ہے۔

منیراکرم نے او آئی سی کا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے درج ذیل مقاصد ہیں:

1)بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر آگاہی میں اضافہ کرنا۔

2) واضح پیغام دینا ہے کہ دنیا ہر قسم کی نسل پرستی، امتیاز، زینوفوبیا، منفی روایتی سوچ اور توہین کے خلاف ہے۔

3) تمام مذاہب، ہر شعبے اور اقوام کے درمیان تحمل، بقائے باہمی اور بین المذاہب اور ثقافتی رواداری کے فروغ کا پیغام دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا اسلاموفوبیا کےخلاف کینیڈین وزیراعظم کے بیان کا خیرمقدم

4)اس دن کو مناتے ہوئے تمام انسانیت کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرنا، انسانی توقیر کا احترام اور تنوع میں اتحاد کے لیے مشترکہ مفادات کا اعادہ کرنا ہے۔

منیراکرم نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ اس دن کو منانے کا مقصد جوڑنا ہے نہ کہ تقسیم کرنا۔

تبصرے (0) بند ہیں