سیاسی جماعتوں میں تصادم کا خطرہ، سپریم کورٹ بار کا عدالت سے رجوع

17 مارچ 2022
درخواست میں کہا گیا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست میں کہا گیا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع تصادم کو روکنے کے لیے عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، وزیراعظم عمران خان، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر، اسپیکر قومی اسمبلی، سیکریٹری قومی اسمبلی، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے۔

مذکورہ درخواست تحریک عدم اعتماد اور اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جلسوں کے اعلان کے پیش نظر دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اگر معاملات حل نہ ہوئے تو دما دم مست قلندر ہوگا، شیخ رشید

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی سیاسی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران کی جانب سے (تحریک عدم اعتماد کے حق میں) ووٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گی۔

درخواست گزار کے مطابق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تواتر سے بتایا جا رہا ہے کہ مذکورہ اراکین کو قومی اسمبلی کے متوقع اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے بغیر 5 سال کیلئے قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے، شہباز شریف

درخواست میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور دیگر وزرا سمیت اپوزیشن کے متعدد بیانات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت تمام اسٹیلک ہولڈرز کو تحریک عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہونے دینے کا حکم دیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ تمام ریاستی اداروں کو سختی سے آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت کسی بھی نقصان دہ اور غیر ضروری طریقے سے کام کرنے سے روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شجاعت کا حکومت، اپوزیشن سے ڈی چوک میں جلسہ منسوخ کرنے کا مطالبہ

درخواست کے متن میں مزید کہا گیا کہ جواب دہندگان، ان کے عہدیداروں یا ان کی ہدایات/احکامات پر عمل کرنے والوں کو ہدایت دیں کہ وہ اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ایسے کسی بھی اجتماع، عوامی جلسوں یا ریلیوں کو روکنے کے ذمہ دار ہوں گے جو کوئی رکاوٹ پیدا کرے یا قومی اسمبلی کے ممبران کو پارلیمنٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز تک پہنچنے میں رکاوٹ کا سبب بنے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ جواب دہندگان یا ان کے عہدیداروں اور ان کی ہدایات/حکم پر عمل کرنے والوں کو کسی اور رکن قومی اسمبلی کو قومی اسمبلی کے طلب کیے گئے اجلاس میں شرکت سے روکنے یا اس میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے سے روکیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ جواب دہندگان یا ان کے عہدیداروں اور ان کی ہدایات/حکم پر عمل کرنے والوں کو کسی اور رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری یا ان کے خلاف کسی بھی زبردستی اقدام/کارروائی سے روکیں۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کا لانگ مارچ کا اعلان، عدم اعتماد پر ووٹنگ تک اسلام آباد میں رہنے کا اشارہ

درخواست میں استدعا کی گئی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایت دیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، اپنے فرائض سرانجام دیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط (2007) کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کو نمٹا دیں۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ (اس حوالے سے) کوئی دوسرا ریلیف (بھی فراہم کیا جائے) جسے یہ معزز عدالت مناسب سمجھے۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 27 مارچ کو جلسے میں 10 لاکھ کا مجمع اکھٹا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں