وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سندھ میں گورنر راج کے تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج بنی گالا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس کا تھا، جس کی صدارت چیئرمین عمران خان نے کی۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال گیا اور عدم اعتماد کی تحریک پر سینئر قیادت نے بات کی اور پی ٹی آئی کا فیصلہ ہے کہ عدم اعتماد کا مقابلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو جمہوری انداز میں، سیاسی طریقے سے اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے شکست دیں گے، جو بات کی جارہی ہے ہم بے جا لوگوں کے راستے میں رکاؤٹ بنیں گے اور کسی کو جانے نہیں دیں گے، یہ محض پراپیگنڈا ہے اور یہ ایک پختہ سیاسی سوچ کی نفی ہے اور ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ میں اس ابہام کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا چاہتا ہوں اور یہ پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ پر اخبارات میں بھی خبریں ہیں اور بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس بھی کی ہے لیکن ایک جملے میں ایسا کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور سب کی رائے یہ ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ماضی کے تجربات ہمارے سامنے ہیں اور ہم نے ان کا جائزہ بھی لیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعید غنی یا بلاول بھٹو نے بے جا پریشان نہ ہوں تحریک انصاف کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس پر بھی جماعت کی تمام سینئر قیادت کا متفقہ فیصلہ اور رائے تھی۔

انہوں نے کہا کہ اتحادیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور چھوڑ جائیں گے، تسلسل سے میں کہہ رہا ہوں کہ اتحادی ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ میں نے کام کیا ہے، ان کا ایک سیاسی گھرانا ہے، وہ جذباتی نہیں مگر سیاسی فیصلے کرتے ہیں، کس منطق میں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کے لیے دل میں کتنی گنجائش رکھتی ہے۔

مسلم لیگ (ق) کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں ان کے راستے میں کانٹے مسلم لیگ (ن) نے بچائے یا تحریک انصاف نے رکھے، ہم تو مل کر چلے، ایک دوسرے کا سہارا بنے، ہم تو آج بھی اکٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری سیاسی رائے کے مطابق وہ مسلم لیگ (ن) پر بھروسہ کبھی نہیں کریں گے، کہا جارہا کہ پنجاب میں ان کو وزارت اعلیٰ کے عہدے کی پیش کش کی جارہی ہے، اکثریت وہاں مسلم لیگ (ن) کی ہے، یہ اقلیت میں ہوں گے، جب چاہیں نیچے سے قالین کھینچ لیں، تو اس وزارت اعلیٰ اور مدت کا کیا بھروسہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں اکثریت مسلم لیگ(ن) کے وزرا کی ہوگی تو وزیراعلیٰ کس طرح مؤثر طریقے سے کام کرسکیں گے، یہ ایک غیرسیاسی فیصلہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پھر کہا جارہا ہے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان بھی ساتھ چھوڑ دے گی تو یہ بھی غیرمنطقی بات ہے کیونکہ کراچی میں تو پیپلزپارٹی کی وہ نفی ہیں، کیا ایم کیو ایم کا کارکن کراچی میں پی پی پی نے جو کچھ کیا ہے اس سے غافل ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے اراکین اسمبلی مختلف جگہوں پر ہیں اور چند سندھ ہاؤس میں بھی بیٹھے ہیں، تعداد کی قیاس آرائیاں ہیں اور مبالغہ آرائی بھی ہو رہی ہے، سیاست میں ہوتی ہے، اس ک گنجائش ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھ دار اور سیاسی لوگ ہیں، انہیں یقیناً پتہ ہوگا کہ قانون کیا کہتا ہے، آئین کے تقاضے کیا ہیں اور انہیں مینڈیٹ کیا ملا، بلے کے نشان پر منتخب ہو کر آئے ہیں تو کارکنان نے توقعات وابستہ کی ہوںگی۔

پی ٹی آئی کے ناراض اراکین سے انہوں نے کہا کہ وہ اگر ٹھنڈے دل سے ازسر نو جائزہ لیں، گلے شکوے گھر میں بھی ہوجاتے ہیں، بھائی بھائی سے جدا ہوتے ہیں لیکن بیٹھتے ہیں، نظرثانی ہوجاتی ہے، شکوے دور ہوجاتے ہیں، پارٹی میں بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان کو رفع دفع کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی مخالف کی گود میں بیٹھ کر آپ اپنا مستقبل نہیں سنوار سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی ان اپنے معزز اراکین اور بھائیوں سے کہوں گا غور کیجیے، آپ فیصلہ کرسکتے ہیں آپ آزاد ہیں، آپ پر دباؤ نہ تھا اور نہ ہم دے سکتے ہیں، ہم ایک دوسرے پر دباؤ نہیں ڈال سکتے ہیں، ایک دوسرے سے گزارشات کرسکتےہیں اور منا سکتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ کی ہر جائز بات سننے کو بھی تیار ہیں لیکن اگر ہمارے دوست تحریک عدم اعتماد میں اپنی جماعت سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں تو بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت دوست اور خیرخواہ کے میری اپیل ہے کہ اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں کیونکہ میں ہار ٹریڈنگ، لوٹوں کی بوریوں کا بھی ذکر نہیں کروں گا کیونکہ مجھے ان کی ساکھ پر اعتماد ہے، میں ان سے صرف یہ کہوں کہ ٹھنڈے دل سے تولیے، تول کر بولیے اورفیصلہ کیجیے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ آج سیاسی کمیٹی نے قانون، آئین اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اس اپیل کے باوجود کوئی رکن منحرف ہوتا ہے تو اس کوشوکاز نوٹس بھی دیا جائے گا اور ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی بھیج دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی اور قانونی انداز میں پارلیمانی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کا ہر مقابلہ کرنا چاہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بازار میں ایک اور چیز گردش کر رہی ہے، سب کچھ ٹھیک ہے، صرف عمران خان ٹھیک نہیں ہے، یعنی کہ سب کچھ بچ سکتا ہے اگر مائنس ون ہوجائے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا کہنا چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف میں مائنس ون کی کوئی گنجائش نہیں، یہ ابہام اگر کسی کے ذہن میں ہے تو نکال دیجیے۔

انہوں نے کہا کہ پھر کہنے والے کون ہیں، کیا آپ میثاق جمہوریت بھول گئے ہیں، جب محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں مائنس ون کی بات کی جاتی تھی تو آپ قبول کرتے تھے، جب آصف علی زرداری کے بارے میں مائنس ون کہا جاتا تھا تو آپ مانتے تھے، حالانکہ ان کا اتنا وزن تھا کہ ان کی پارٹی اس وزن سے دب رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مائنس ون اور شہباز شریف کا اشارہ دیا جاتا تھا کہ وہ نعم البدل ہوسکتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) مائنس ون پر متفق ہوئی تھی تو یہ آزمائے ہوئے فارمولے ہیں، جن کو عوام مسترد کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان تحریک انصاف کا بانی چیئرمین ہیں اور یہ وہ بندہ جس نے خود پودا لگایا تو کیا ان سے زیادہ پودے کی فکر مجھے ہوگی۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ آج فیصلہ یہ ہوا کہ جو دباؤ نظر آرہا ہے اور لوگوں کے رشتے داروں کے فون آرہے ہیں کہ وہ سمجھائیں گے کہ ایسا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں ہے کہ کسی کو ڈرایا دھمکایا جائے، وہ ہماری سیاست نہیں ہے لیکن اخلاقی دباؤ محسوس ہو رہا ہے، ایک سے زائد لوگوں نے رابطہ بھی کیا اور پیغامات بھی بھیجے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹسز پر کام جاری تھا اور یہاں سے جانے کے بعد شوکاز نوٹسز بھی دستخط کروں گا، جس کے بعد وہ جاری کردیے جائیں گے اور جو فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے وہ جواب میں آجائے گا۔

اسد عمر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی ضرورت بھی ہے کہ ہم پہلے شوکاز نوٹس جاری کریں تو وہ جاری ہوجائے گا۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ مسئلہ بڑا سادہ ہے، سندھ ہاؤس میں جتنے لوگ ہیں وہ سب قید کیے گئے ہیں اور ان پر وہاں سے پولیس بلا کر لگا دی گئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور ان کو رہا کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں کیا ووٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں تو لہٰذا ہم نے سپریم کورٹ سے پوچھا ہے تو صدارتی ریفرینس جائے گا تو سپریم کورٹ فیصلہ کرے گا اور اس کے مطابق آگے چلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس پیر کو دائر ہوگا اور شوکاز نوٹس اسپیکر کو جائیں گے اور دوسری طرف سپریم کورٹ سے درخواست کر رہے ہیں کہ روزانہ سماعت کرکے ان سوالات کا جواب سامنے رکھیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وزیرداخلہ شیخ رشید نے نے جائز طور پر سندھ کی حکومت کے غیر آئینی اقدامات سے وفاق کو آگاہ کیا اور سندھ میں گورنر راج کا ایک آپشن ہے لیکن اس پر ہم نے کہا ہے فی الحال عمل نہیں کر رہے ہیں۔

سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صورت حال ایسے رہی تو پھر دیکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں