پاکستان مخالف بولی وڈ فلم میں فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ شامل کردی گئی

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2022
گانے کو انتہاپسند مسلمانوں پر فلمایا گیا ہے—اسکرین شاٹ
گانے کو انتہاپسند مسلمانوں پر فلمایا گیا ہے—اسکرین شاٹ

فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری کی پاکستان سے نفرت اور مسلم مخالف فلم ’دی کشمیر فائلز‘ میں پاکستان کے شہرہ آفاق انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی لازوال نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو شامل کرنے پر پاکستانی شائقین نے بھارتی فلم ساز پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

’دی کشمیر فائلز‘ کو کچھ دن قبل ریلیز کیا گیا تھا، جس کی کہانی 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں کی گئی نسل کشی پر مبنی ہے لیکن حیران کن طور پر فلم میں مسلمانوں کے بجائے پنڈتوں کی نسل کشی کو دکھایا گیا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

’د کشمیر فائلز‘ کی کہانی اور ہدایات وویک رنجن نے دی ہیں جب کہ وہ فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’دی کشمیر فائلز‘: بولی وڈ فلم نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھادی

وویک رنجن کی اہلیہ اداکارہ پلوی جوشی نے بھی فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے جنہیں ایک طرح سے پاکستانی مہرے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

فلم کو ریلیز کیے جانے کے بعد جہاں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت دیکھی گئی، وہیں دنیا بھر میں فلم پر حقائق کو غلط پیش کرنے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

فلم کو بھارتی سینماؤں میں دکھائے جاتے وقت بھارتی مسلمانوں کے غدار ہونے اور انہیں ملک سے نکالنے کے نعرے بھی سنائی دیے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پوسٹس دیکھی گئیں۔

حیران کن طور پروپیگنڈا کے لیے بنائی گئی پاکستان اور مسلمان مخالف فلم میں فیض احمد فیض کی جانب سے ظلم کے خلاف لکھی گئی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو بھی شامل کرلیا گیا۔

’ہم دیکھیں گے‘ کو فلم میں مقبوضہ کشمیر میں خانہ جنگی اور تشدد کے دوران انتہاپسند مسلمانوں کے کردار ادا کرنے والے اداکاروں پر فلمایا گیا ہے۔

’ہم دیکھیں گے‘ کو فلم میں دہشت گرد اور کشمیری ہندو پنڈتوں کے قتل میں ملوث افراد یا وہاں پر قتل عام کی سازش تیار کرنے والے اداکاروں پر فلمایا گیا ہے، جس سے پاکستانی شائقین نالاں دکھائی دیے۔

’ہم دیکھیں گے‘ کی مختصر ویڈیو کلپ کو ’زی میوزک‘ کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا تو لوگوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور لکھا کہ حیران کن طور پر ظلم کے خلاف لکھی شاعری کو ظلم کو چھپانے کے لیے بنائی گئی پروپیگنڈا فلم میں شامل کیا گیا ہے۔

نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی لوگ بھی اس پر حیران دکھائی دیے کہ ظلم کے خلاف لکھی گئی فیض کی شاعری کو نیو نازی ازم پروپیگنڈا کے لیے بنائی گئی فلم میں شامل کرلیا گیا۔

بعض لوگوں نے بھارتی فلم ساز کی بے وقوفی پر بھی طنز کیا کہ انہوں نے نظم کی شاعری کو سمجھے بغیر ہی اپنی فلم میں شامل کرلیا، لوگوں نے انہیں بتایا کہ دراصل فیض نے کشمیر میں ہونے والے مظالم جیسے مظالم کے خلاف ہی شاعری لکھی تھی۔

کچھ لوگوں نے لکھا کہ فیض احمد فیض نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کی ظلم کے خلاف لکھی گئی نظم ایک دن مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے خلاف ہی استعمال ہوگی۔

کچھ لوگوں نے فلم کی ٹیم پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے فیض احمد فیض کی شاعری کو اجازت کے بغیر چوری کرکے فلم میں شامل کیا ہے۔

تاہم ایسے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فلم ساز وویک رنجن اگنی ہوتری نے واضح کیا کہ انہوں نے ’ہم دیکھیں گے‘ کی شاعری کو چوری نہیں کیا بلکہ انہوں نے آفیشلی طور پر ’فیض محل لاہور‘ سے اس نظم کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کی۔

فلم کی ٹیم نے گانے کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے اس میں شاعر کا نام فیض احمد فیض بھی درج کیا ہے، تاہم یوٹیوب پر ان کا نام غلط لکھا گیا ہے اور انہیں فیض احمد فیض کے بجائے ’فیض انور فیض‘ لکھا گیا ہے۔

یوٹیوب پر فیض احمد فیض کا نام بھی غلط لکھا گیا ہے—اسکرین شاٹ
یوٹیوب پر فیض احمد فیض کا نام بھی غلط لکھا گیا ہے—اسکرین شاٹ

تبصرے (0) بند ہیں