برطانیہ میں مہنگائی 30 سال کی بلند ترین سطح 6.2 فیصد پر پہنچ گئی

23 مارچ 2022
برطانیہ (جی 7) ممالک میں سالانہ افراط زر کی شرح کے لحاظ سے امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے—فائل فوٹو:رائٹرز
برطانیہ (جی 7) ممالک میں سالانہ افراط زر کی شرح کے لحاظ سے امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے—فائل فوٹو:رائٹرز

برطاننیہ میں مہنگائی کی شرح گزشتہ ماہ توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھتے ہوئے 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس سے گھریلو مالیاتی قرض کا توازن تاریخی دباؤ کے ساتھ مزید خراب ہو گیا جبکہ وزیر خزانہ رشی سنک پر سخت دباؤ ہے کہ وہ اس صورتحال کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق برطانوی قومی شماریات ( او این ایس) کے دفتر کا کہنا ہے کہ جنوری میں 5.5 فیصد اضافے کے بعد فروری میں صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والا اضافہ 6.2 فیصد ہوگیا ، یہ اضافے کی مارچ 1992 کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے۔

برطانیہ اب گروپ آف سیون (جی 7) ممالک میں سالانہ افراط زر کی شرح کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، مہنگائی کی شرح میں برطانیہ صرف امریکا کے پیچھے ہے جبکہ عالمی اجناس اور توانائی کی قیمتیں یوکرین پر روس کے حملے بعد سے مزید بڑھ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی نژاد خاتون برطانیہ کی پہلی مسلمان وزیر بن گئیں

اقتصادی ماہرین کے رائٹرز کے سروے میں زیادہ تر ماہرین نے 5.9 فیصد شرح رہنے کی پیش گوئی کی تھی، 39 جواب دہندگان میں سے صرف تین نے مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافے کی جانب اشارہ کیا تھا۔

او این ایس نے گھریلو توانائی کے بلوں میں اضافے کو نمایاں کیا جن میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریبا 25 فیصد زیادہ دیکھا گیا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فروری کے مہینے میں ہونے والے اضافے کا سب سے بڑا عنصر ہے۔

او این ایس نے غریب گھرانوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے بتایا کہ عام حالات کے برعکس کھانے پینے کی تمام اشیا کی قیمتیں یکساں طور پر بڑھ رہی ہیں جبکہ عام حالات میں کچھ اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور اس کے ساتھ کچھ اشیا کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں۔

وزیر خزانہ رشی سنک کئی دہائیوں میں زندگی گزارنے کے سب سے بدترین دباؤ کے دوران برطانوی شہریوں کی مدد کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ انتخابات: لیبر پارٹی کی پاکستانی نژاد خواتین کامیاب

زیر غور تجاویز میں ایندھن پر عائد ٹیکس میں کمی، سماجی تحفظ کے نظام میں ادائیگی کی ابتدائی حد کو بڑھانا شامل ہے جو فلاحی ادائیگیوں کو مہنگائی کے ساتھ منسلک کرنے کو یقینی بناتے ہیں۔

کے پی ایم جی یو کے میں تعینات ییل سیلفن کی چیف اکانومسٹ کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار بینک آف انگلینڈ پر شرح سود میں اضافہ جاری رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے لیکن اب بھی امکان ہے کہ قیمتوں میں اضافہ بہت پہلے ہی عروج پر ہوگا۔

بی آر آئی ویلتھ مینیجمنٹ کے چیف انویسٹمنٹ افسر ڈین بورڈ مین ویسٹن کا کہنا تھا کہ گھریلو بلوں اور بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کے وقت شرح میں اضافہ معاشی بحالی کو روک سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو کساد بازاری سے بچاتے ہوئے بینک کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بہت احتیاط کی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی کی خاتون لندن پولیس میں سپرنٹنڈنٹ بن گئیں

او ایس این کا کہنا ہے کہ صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں ماہانہ بنیادوں پر اضاافہ 0.8 فیصد کی شرح سے ہوا ہے جو 2009 کے بعد فروری میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

گزشتہ ہفتے بی او ای نے اپریل۔جون کی مدت کے دوران سالانہ افراط زر کے 8 فیصد سے اوپر ہونے کی توقع ظاہر کی ہے جو اس کے ہدف سے چار گنا زیادہ ہے جبکہ ریگولیٹڈ گھریلو توانائی کے بل اگلے مہینے نصف سے زیادہ بڑھنے والے ہیں۔

بنیادی شرح منہگائی جس میں خوراک اور توانائی کی لاگت کا براہ راست اثر شامل نہیں ہے، 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.2 فیصد ہو گیا- یہ اضافہ مارچ 1992 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

افراط زر کا دباؤ آگے بڑھتا رہا کیونکہ مینوفیکچررز نے اپنی قیمتوں میں 10.1 کا اضافہ کیا، جو ستمبر 2008 کے بعد سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں