وزیر خارجہ کی فلسطینی ہم منصب سے ملاقات، جدوجہد میں حمایت کی یقین دہانی

پاکستان، فلسطین کے وزرائے خارجہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48ویں اجلاس کے موقع پر ملاقات کی—فوٹو:شاہ محمود قریشی ٹوئٹر
پاکستان، فلسطین کے وزرائے خارجہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48ویں اجلاس کے موقع پر ملاقات کی—فوٹو:شاہ محمود قریشی ٹوئٹر

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطینی ہم منصب ڈاکٹر ریاض المالکی سے ملاقات کی اور فلسطینیوں کی منصفانہ جدوجہد میں ان کے حقوق کے لیے پاکستان کی واضح حمایت کا اعادہ کیا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستان اور فلسطین کے وزرائے خارجہ نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48ویں اجلاس کے موقع پر ملاقات کی، او آئی سی اجلاس کی میزبانی پاکستان اسلام آباد میں کر رہا ہے، دو روزہ سربراہی اجلاس آج ختم ہوگا۔

دفتر خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے فلسطینی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ فلسطین پر اسلام آباد کا اصولی مؤقف پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ہم نے فلسطینیوں اور کشمیریوں کو مایوس کیا، عمران خان

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، فلسطین کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، پاکستان او آئی سی سمیت تمام عالمی فورمز پر مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرتا آ رہا ہے،پاکستان، فلسطین کے حوالے سے اپنے اصولی اور واضح موقف پر کاربند ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ فلسطینی وزیر خارجہ نے فلسطین کی موجودہ صورتحال سے وزیر خارجہ کو آگاہ کیا، ڈاکٹر ریاض المالکی نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی غیر متزلزل حمایت اور اقوام متحدہ اور او آئی سی اجلاس میں اصولی مؤقف اپنانے پر شکریہ ادا کیا۔

فلسطینی وزیر خارجہ نے فلسطین میں جنگ بندی کیلئے پاکستان کے متحرک اور فعال کردار کو سراہتے ہوئے، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور فلسطین کے دو طرفہ تعلقات کا بھی جائزہ لیا اور علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں:مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز پر غور کیلئے او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس

ملاقات کے بارے میں سماجی رابطے کی ویب سائب ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی طلباء کو اپنے تعلیمی اداروں اور فوجی کورسز میں نشستوں کی پیشکش جاری رکھنے پر خوش ہے۔

اپنے ٹوئٹر پیغام وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم فلسطینی سفارت کاروں کو پاکستان میں جونیئر اور ایڈوانس ڈپلومیٹک کورسز میں بھی نشستیں فراہم کریں گے۔

ہم نے فلسطینیوں اور کشمیریوں کو مایوس کیا، عمران خان

مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی یہ یقین دہانی وزیر اعظم عمران خان کے او آئی سی سربراہی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران افسوس کا اظہار کرنے کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے عوام کو مایوس کر چکے ہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی اجلاس سے اہم اور مرکزی خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ہم اس حوالے سے کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان کے لیے او آئی سی 'ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ' قائم

اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس حوالے سے کوئی اثر قائم نہیں کر سکے، ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا، ڈیڑھ ارب مسلم آبادی ہونے کے باوجود ہم اس ظلم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا جارہا جس کی عالمی برادری نے ضمانت دی تھی بلکہ 5 اگست 2019 کو ان سے خصوصی حیثیت بھی چھین لی گئی، بھارت مسلمان آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہ رہا ہے اور اس حوالے سے اسے کوئی خوف یا دباؤ نہیں ہے، اسی طرح فلسطین میں بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور اسرائیل کو بھی کوئی روکنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں غیر مؤثر سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے لیکن او آئی سی کے اس پلیٹ فارم کے ذریعے کم از کم ان بنیادی ایشوز پر ہمیں متفقہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ جب تک ہم ڈیڑھ ارب مسلمان متحد نہیں ہوجاتے تب تک ہمیں سنا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے، افغان عوام جیسا مشکل ترین دور دنیا میں کسی نے نہیں برداشت کیا، پابندیوں کی وجہ سے افغانستان میں انسانی بحران کا خطرہ ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے وقت میں ہم افغان عوام کی مدد کریں۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان کا او آئی سی اجلاس میں شرکت کیلئے وزیرخارجہ نہ بھیجنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا تھا کہ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ صرف مستحکم افغانستان ہی عالمی سطح پر دہشت گردی کو روکنے کا واحد طریقہ ہے، یہ بات ذہن سے نکال دیں کے کوئی ملک آکر ڈرون حملے کرے گا اور دہشت گردی کے مسئلے سے جان چھوٹ جائے گی، ایک مستحکم افغان حکومت ہی اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ میں تنبیہ کرتا ہوں کہ افغان عوام کو اس حد تک نے دھکیلیں کہ ان کو اپنی خودمختاری داؤ پر لگتی محسوس ہو، افغان غیور عوام ہیں جنہوں نے اپنی بقا کے لیے صدیوں تک جنگ لڑی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ افغان عوام کی حوصلہ افزائی اور انہیں عالمی برادری کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے لیکن یہ واضح رہے کہ افغان عوام بیرونی مداخلت پسند نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے دہانے پر کھڑی دنیا اس وقت غلط جانب بڑھ رہی ہے، دنیا کے مختلف بلاکس میں تقسیم ہونے کے امکانات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں موجود تمام لوگ یوکرین کی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کی نمائندگی کرتے ہوئے ہم کس طرح اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ چین کے ساتھ مل کر ہمیں اس تنازع کا فوری حل نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ اس کے اثرات پوری دنیا کو برداشت کرنے پڑیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:او آئی سی اجلاس کے فیصلے افغان شہریوں کیلئے معاون ثابت ہوں گے، سیکریٹری جنرل

انہوں نے کہا تھا کہ اس تنازع کے اثرات ہم پہلے ہی تیل اور گندم کی بڑھتی قیمتوں کی صورت میں برداشت کر رہے ہیں، اگر یہ اسی طرح جاری رہا تو یہ صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈیڑھ ارب آبادی کی حیثیت سے اپنی قوت کو نظر انداز کرتے آئے ہیں، ہمیں خود پر اعتماد نہیں ہے اس لیے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہم دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں، دنیا جس جانب بڑھ رہی ہے یہ بڑا ضروری ہے کہ ہم اب متحد ہوجائیں اور کسی تنازع یا بلاک کا حصہ بننے کے بجائے ایک واحد بلاک بن کر بنیادی ایشوز پر مل کر آواز اٹھائیں۔

عمران خان نے کہا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقیت ہے اور اس حوالے سےاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے، او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا، اس کے لیے 15 مارچ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ میں ایک مسلح شخص نے مسجد میں داخل ہو کر 50 مسلمانوں کو شہید کیا، اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشت گرد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر اعظم سے او آئی سی سیکریٹری جنرل سمیت کئی ممالک کے وزرا کی ملاقاتیں

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا، بہت معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اس کے ذمہ دار ہم خود تھے کیونکہ اس بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے ہم نے اقدامات نہیں اٹھائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مسلم ممالک کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اس پر ٹھوس مؤقف اختیار کرنے کے بجائے اپنے آپ کو روشن خیال اور اعتدال پسند قرار دیا، ہمارے اس وقت کے سربراہ مملکت کی جانب سے’اِنلائٹنڈ ماڈریشن‘ (روشن خیال جدیدیت) کا نعرہ لگایا گیا، میں خود کئی لوگوں سے بہتر انگریزی جانتا ہوں لیکن اس اصطلاح کا مطلب میں بھی آج تک نہیں سمجھ سکا۔

انہوں نے کہا تھا کہ روشن خیالی کا نعرہ محض مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے لگایا گیا، اسلام تو صرف ایک ہی ہے لیکن دنیا کی ہر کمیونٹی میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرنے والا بھی ان کے معاشرے کا ہی ایک حصہ تھا مگر دنیا کی کسی اور کمیونٹی کو اس طرح دہشت گردی سے نہیں جوڑا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب کا افغانستان کیلئے ایک ارب ریال امداد کا اعلان

وزیراعظم نے کہا تھا کہ مسلم ممالک کی جانب سے اس بیانیے کا جواب نہ دینے کا نتیجہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، نائن الیون کے بعد غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا۔ انہوں نے کہا تھا کہ 1989 میں ایک گستاخانہ کتاب سلمان رشدی نے لکھی، اس واقعے کے بعد بھی مسلم ممالک مغرب کو توہین رسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت سے آگاہ نہیں کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں مذہب کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا جس طرح مسلم ممالک میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے، اس لیے مغربی ممالک توہین اور گستاخی سے متعلق مسلمانوں کے جذبات نہیں سمجھ سکتے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد غیر مسلم ممالک کی جانب سے گستاخیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے ردعمل سے اسلاموفوبیا بڑھتا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے اور اس حوالے سےاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اب ہم دنیا کو یہ باور کرانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے کہ گستاخی اور توہین آمیز واقعات سے کس طرح ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ حضرت محمد ﷺ کو قرآن میں رحمت اللعٰلمین کا لقب دیا گیا، حضرت محمد ﷺ کی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا، انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا، انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہوگی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ آج دنیا بھر کے پسماندہ ممالک پر نظر ڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تاریخ کے پہلے 2 خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے تھے کیونکہ قاضی نے خلیفہ کے بیٹے کی گواہی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:او آئی سی اجلاس میں امریکی مندوب کی شرکت بڑی پیش رفت ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا تھا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابر حقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، ایک عام شہری ریاست کے سربراہ کے خلاف مقدمہ جیت جاتا تھا، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، کمزوروں، غریبوں اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا تھا۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج ہمیں مغربی ممالک کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں فلاحی ریاست کا جو تصور موجود ہے وہ مسلم ممالک میں کہیں نہیں نظر آتا، ہمارے یہاں انسانوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو مغربی ممالک میں جانوروں کو حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں خواتین کو پہلی بار وراثت میں حق ملا، یورپی ممالک کو خواتین کو یہ حقوق فراہم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیا جارہا تھا، اس لیے ہمیں اس کے لیے خصوصی بل منظور کروانے پڑے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ او آئی سی کا ایک مقصد اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا تھا جنہیں آج سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہے، میں جب وزیر اعظم بنا تو مجھے بتایا گیا کہ پاکستان میں جنسی جرائم سب سےزیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ہم نے اس کی وجوہات تلاش کیں تو پتا چلا کہ موبائل پر باآسانی دستیاب پورنوگرافی اس کی اہم وجہ ہے، اس لیے ہمیں اس پیلٹ فارم کے ذریعے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس، شرکت کیلئے وفود کی آمد کل سےشروع ہوگی، وزیرخارجہ

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب اسلام خاندانی نظام کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے یہاں والدین اور اساتذہ کا خصوصی احترام کیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والا کلچر ان اقدار کو متاثر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے علما پر مشتمل رحمت اللعٰلمین اتھارٹی اسی لیے بنائی ہے تاکہ اس چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل (سی ایف ایم) کا 48واں اجلاس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جاری ہے جس میں مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز، تنازعات اور ابھرتے ہوئے مواقع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں 47ویں اجلاس کے چئیر نائیجر کے وزیرخارجہ ہاسومی مسعودی نے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کو 48ویں اجلاس کی چئیرمین شپ سونپی تھی۔

اجلاس میں 46 ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی، ان کے علاوہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزرا اور اہم شخصیات نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی تھی۔ مسلم ممالک کی 57 رکنی کونسل کا 2 روزہ سالانہ اجلاس ’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری کی تعمیر‘ کے موضوع کے تحت منعقد ہو رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں