آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہلی نہیں، سپریم کورٹ بار

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022
جے یو آئی (ف) نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت، پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے —فائل فوٹو: اے ایف پی
جے یو آئی (ف) نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت، پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے —فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آرٹیکل 63 'اے' کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر جمع کروائے گئے جواب میں عدم اعتماد کی تحریک میں رکن قومی اسمبلی کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے)، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے آئین کے آرٹیکل 63 'اے' کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر اپنے اپنے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے تشکیل دیے گئے بینچ پر اعتراض

سپریم کورٹ بار کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں، کسی رکن کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر کوئی نااہلی نہیں۔

سپریم کورٹ بار نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ عوام اپنے منتحب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت کسی بھی رکن کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا، آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے، ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خود مختار ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے صدارتی ریفرنس کو وقت کا ضیاع قرار دے دیا

صدارتی ریفرنس پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی جواب آگیا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) نے صدارتی ریفرنس کو عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دے دیا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95 واضح ہے، ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ہر رکن اسمبلی کا کاسٹ کیا گیا ووٹ گنتی میں شمار بھی ہوگا۔

مزید پڑھیں: صدارتی ریفرنس پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل

جواب میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس پریمیچور اور غیر ضروری ایکسرسائز ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے آئینی ترمیم کا نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تحریری جواب وکیل مخدوم علی خان نے تیار کیا۔

صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، پیپلز پارٹی

صدارتی ریفرنس پر پیپلزپارٹی کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ رکن اسمبلی کے ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے 63 اے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

جواب میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے سے اپیل کا حق متاثر ہوگا۔

آرٹیکل 63 اے غیر جمہوری ہے، جے یو آئی (ف)

دوسری جانب جے یو آئی (ف) کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔

جے یو آئی (ف) نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریک انصاف میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے، جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، سلیکٹڈ عہدیدار آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے، اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا

جے یو آئی (ف) کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے، سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر مؤثر ہو جائے گا۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے، ریفرنس سے لگتا ہے صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے، پارٹی کے خلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی۔

فواد چوہدری کا ردعمل

سپریم کورٹ بار کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا جواب پڑھ کر لگتا ہے کہ سپریم کورٹ بار باڈی (ن) لیگ کی سبسڈری ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ وکلا تنظیموں کا کام سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننا نہیں اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

فواد چوہدری نے کہا کہ عام وکیل، وکلا تنظیموں کے اس کردار سے نالاں ہے اور لاہور بار کے انتخابات میں اس گروپ کو جو شکست ہوئی وہ وکلا کا ردعمل ہے۔


یاد رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا گیا تھا، ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے گئے ہیں:

  • آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:

i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔

ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

  • کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟

  • کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟

  • موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔


واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ کا لارجر بینچ صدارتی ریفرنس پر آج سماعت کرے گا، لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں