پیوٹن کے اقتدار کے حوالے سے بائیڈن کے بیان پر وائٹ ہاؤس کی وضاحت

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2022
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکی صدر پیوٹن کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار میں تبدیلی کی بات نہیں کر رہے تھے— فوٹو: اے ایف پی
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکی صدر پیوٹن کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار میں تبدیلی کی بات نہیں کر رہے تھے— فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اقتدار کے خاتمے کے حوالے سے بیان پر وائٹ ہاؤس نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر اقتدار میں تبدیلی کی بات نہیں کر رہے تھے۔

خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق پولینڈ میں ہفتے کو گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اقتدار میں موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: روسی فورسز نے یوکرین کے درجنوں عہدیداروں، صحافیوں کو لاپتا کردیا، اقوام متحدہ

پولینڈ میں یوکرین کے مہاجرین سے ملاقات کے بعد بائیڈن نے وارسا کے شاہی محل کے سامنے جمع عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔

بائیڈن نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین اب خود مختاری اور جمہوریت کے درمیان لڑائی میں ایک مرکزی جنگ ہے، لیکن یوکرین کے لوگوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

امریکی صدر یوکرین اور پولینڈ دونوں کے عہدیداوں سے ملاقات کے لیے پولینڈ میں ہیں اور انہوں نے روس کے خلاف جنگ میں مدد کا عزم ظاہر کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ جنگ چند دن یا مہینوں میں نہیں جیتی جائے گی، ہمیں ایک طویل جنگ کے لیے خود کو مضبوط بنانا ہوگا۔

جو بائیڈن نے روس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کی حدود کی جانب ایک قدم بھی بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچنا اور امریکا مکمل طاقت کے ساتھ نیٹو ممالک کے دفاع کے لیے پُرعزم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین جنگ کے باوجود روس، امریکا سے میرٹ پر تعلقات استوار ہیں، بھارت

تاہم امریکی صدر نے ساتھ ساتھ واضح کیا کہ امریکی فورسز، یورپ میں روس کے ساتھ کسی تنازع میں الجھنے کے لیے نہیں بلکہ نیٹو کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔

پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ آدمی اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔

تاہم بائیڈن کے اس بیان کے بعد وائٹ کو وضاحت دینی پڑ گئی کیونکہ امریکی صدر کے بیان سے یہ واضح تاثر جارہا تھا کہ پیوٹن کو اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے، لیکن وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکی صدر ایسا نہیں چاہ رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے وضاحتی بیان میں کہا کہ صدر کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پیوٹن کی جانب سے پڑوسی ممالک کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، وہ پیوٹن کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار میں تبدیلی کی بات نہیں کر رہے تھے۔

اس سے قبل بھی امریکی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ بائیڈن کو اقتدار سے ہٹانا ان کا ہدف نہیں۔

مزید پڑھیں: روسی صدر کا 'غیردوستانہ ممالک' سے گیس کی قیمت اپنی کرنسی میں وصول کرنے کا اعلان

تاہم کریملن نے بائیڈن کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا فیصلہ بائیڈن نے نہیں کرنا بلکہ یہ روسی فیڈریشن کے عوام کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

اس سے قبل پولینڈ کے صدر آندریج دودا سے ملاقات کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ دنیا کے دیگر خطوں میں امریکا کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا انحصار ایک متحد اور محفوظ یورپ پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دو جنگ عظیم میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے کہ جب ہم معاملے سے الگ رہے اور یورپ کو مستحکم کرنے پر توجہ نہ دی تو اس کے بعد ہمیشہ امریکا پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

بائیڈن کا یہ بیان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکا‘ کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے کیونکہ سابق صدر اکثر یورپی ممالک سے امریکی اتحاد اور نیٹو اتحاد میں شمولیت پر سوالات اٹھاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین مذاکرات میں پیش رفت، مغربی ممالک کا مزید پابندیوں کا منصوبہ

انہوں نے پولش ہم منصب سے گفتگو میں مزید کہا کہ پیوٹن، نیٹو کو تقسیم اور اس کے مشرقی ممالک کو مغربی ممالک سے الگ کرنا چاہتے ہیں، وہ ماضی کی بنیاد پر اقوام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن اب تک ایسا نہیں کرسکے۔

امریکی صدر نے یوکرین کے حکام سے بھی بات چیت کی جس میں خصوصی طور پر یوکرین سے امریکا آنے والے مہاجرین اور انہیں ہر ممکنہ سہولیات کی فراہمی کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں