روس، یوکرین مذاکرات میں پیش رفت، مغربی ممالک کا مزید پابندیوں کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2022
ولودیمیر زیلنسکی نے  اپنے خطاب میں روس کے ساتھ جاری مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی امید ظاہر کی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
ولودیمیر زیلنسکی نے اپنے خطاب میں روس کے ساتھ جاری مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی امید ظاہر کی ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری مذاکرات ایک دوسرے کے مفادات سے متصادم ہیں لیکن ان میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔

دوسری جانب مغربی ممالک انسانی بحران کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر کریملن کے خلاف مزید پابندیوں کا اعلان کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

ماریوپول شہر کی سٹی کونسل کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ شدید روسی فضائی حملے محاصرہ زدہ ماریوپول شہر کو مردہ زمین کی راکھ میں تبدیل کر رہے ہیں، جبکہ بندرگاہی شہر میں سڑکوں پر لڑائی اور بمباری جاری ہے۔

روس کی نیوز ایجنسی کا ایک علیحدگی پسند رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ روسی افواج اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند یونٹوں نے عام حالات میں تقریباً 4 لاکھ آبادی والے بندرگاہی شہر کے تقریباً آدھے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرینی شہروں کے لیے انسانی راہداریاں کھولیں گے، روس

تاہم ولودمیر زیلنسکی نے صبح سویرے کیے گئے اپنے خطاب میں جاری مذاکرات کے لیے امید ظاہر کی، 24 فروری کے حملے کے آغاز کے بعد سے مذاکرات کا اب تک بہت کم نتیجہ برآمد ہوا ہے۔

یوکرینی صدر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل صورتحال ہے لیکن ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی یوکرین میں جنگ نے 35 لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا جبکہ حملے کے بعد روس معاشی پابندیوں کے باعث عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

روسی حملے نے مغربی ممالک میں اتنے بڑے تنازع کے خدشات کو جنم دے دیا ہے جس کا کئی دہائیوں سے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

ماریوپول شہر اس جنگ کا مرکز بن گیا ہے جو اس وقت شروع ہوئی تھی جب روسی صدر نے اپنی فوجیں سرحد پر بھیجی تھیں، روس حملے کو یوکرین کی عسکری صلاحیت ختم کرنے اور اس کی مغرب نواز قیادت کو تبدیل کرنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن قرار دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: یوکرین کے لڑائی بند کرنے تک جنگ ختم نہیں ہوگی، روسی صدر

بندرگاہی شہر ماریوپول ازوف کے سمندری کنارے پر واقع ہے اور اس شہر پر قبضہ روس کو مشرق میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ جزیرہ نما کریمیا کے ساتھ جوڑ دے گا، اس علاقے کو ماسکو نے 2014 میں اپنے ساتھ ضم کر لیا تھا۔

مغربی ممالک کے مزید پابندیوں کے منصوبے

دوسری جانب مغربی ممالک روس پر مزید دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یورپی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن بھی رواں ہفتے برسلز کے دورے کے دوران روس کے خلاف نئی پابندیوں اور موجودہ پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے نامعلوم عہدیداروں اور اندرونی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ امریکا جمعرات کو روس کے ایوان زیریں کے 300 سے زائد ارکان پر پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم کس پر اور کتنے لوگوں پر پابندیاں لگائیں گے اس سے متعلق ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین میں جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، انٹونی بلنکن

جو بائیڈن کے یورپ کے دورے میں براعظم میں توانائی کی حفاظت کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کارروائی کا اعلان بھی شامل ہے، یہ خطہ روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جبکہ ان کے دورے کے دوران یوکرین کے پڑوسی ملک پولینڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے وہاں کا دورہ بھی شامل ہے۔

ذرائع نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ممالک اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا روس کو بڑی معاشی طاقت والے بیس بڑے ممالک کے گروپ (جی 20) میں رہنا چاہیے۔

نیوکلیئر آپشن

دارالحکومت کیف یا کسی دوسرے بڑے شہر پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد روس بغاوت کی جنگ کو ہوا دے رہا ہے جس نے کچھ شہری علاقوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے، روسی اقدام نے مغربی ممالک میں تشویش کی لہر کو جنم دیا ہے کہ تنازع بڑھ کر ایٹمی جنگ تک بھی جاسکتا ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ روس کی سیکیورٹی پالیسی کے مطابق ملک ایسے ہتھیاروں کا استعمال صرف اس صورت میں ہی کرے گا جب اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا شہریوں کے انخلا کیلئے یوکرین میں جزوی جنگ بندی کا اعلان

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے ملک کے لیے بقا کا خطرہ ہو تو ایسی صورتحال میں ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مغربی ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ روسی افواج کیف کے ارد گرد ٹھہری ہوئی ہیں لیکن جنوب اور مشرق میں کچھ پیش رفت کر رہی ہیں، یوکرین کے جنگجو کچھ مقامات پر روسی فوجیوں کو پسپا کر رہے ہیں لیکن انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔

دریں اثنا تقریباً ایک لاکھ افراد یوکرین کے شہر ماریوپول کے کھنڈرات میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں بھوک، پیاس اور مسلسل روسی بمباری کا سامنا ہے، ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 7 ہزار سے زیادہ لوگ فرار ہوئے ہیں لیکن شہر کے مغرب میں ایک متفقہ انسانی راستے پر سفر کرنے والے ایک گروپ کو قابضین نے پکڑ لیا۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی صورت حال مزید خراب ہونے کی وجہ سے ہزاروں مزید لوگ وہاں سے نکلنے سے قاصر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ: ’یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے‘

شہر میں اب بھی تقریباً ایک لاکھ لوگ مکمل محاصرے، خوراک، پانی، ادویات کے بغیر، مسلسل گولہ باری اور مسلسل بمباری کی زد میں رہنے کے ساتھ غیر انسانی حالات میں ہیں، اس صورتحال میں یوکرینی صدر نے روس سے شہریوں کے فرار ہونے کے لیے محفوظ انسانی راہداریوں کی اجازت دینے کے مطالبات کو دہرایا۔

نجی کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ماریوپول کی سیٹلائٹ تصاویر میں جلتی عمارتوں کے مناظر کو دکھایا گیا ہے، تصاویر میں دکھائی گئی شہر کی عمارتوں میں آگ اور دھواں اٹھتا دیکھا جاسکتا ہے۔

انسانی تباہی

جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد سے اب تک 953 شہری ہلاک اور ایک ہزار 557 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ کریملن شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

اقوام متحدہ کے مطابق لاکھوں لوگ بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں اور وہ مشرقی یورپ میں دیکھ بھال، اسکول اور ملازمتوں کے حصول کے لیے بھاگ رہے ہیں۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ روسی گولوں، بموں اور میزائلوں نے ایک تھیٹر، ایک آرٹ اسکول اور دیگر عوامی عمارتوں کو نشانہ بنایا جس میں سیکڑوں خواتین اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے۔

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے یوکرین کے بحران سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے سب سے بڑے اناج برآمد کنندگان میں سے ایک یوکرین پر روسی بمباری کے دوران ہم فصل کیسے کاشت کر سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں