نوزائیدہ بچوں کی 50 فیصد اموات کا تعلق کزن میرجز سے ہے، تحقیق

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2022
پاکستان میں خونی رشتہ داریوں کی شرح  کچھ دیہی علاقوں میں 78 فیصد سے 100 فیصد تک ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
پاکستان میں خونی رشتہ داریوں کی شرح کچھ دیہی علاقوں میں 78 فیصد سے 100 فیصد تک ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

جینیاتی عوارض کو ’ایک خاموش عالمی وبا‘ قرار دیتے ہوئے پاکستانی اور جرمن ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی 50 فیصد اموات کا تعلق بڑی تعداد میں خونی رشتہ داریوں سے ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چلڈرن ہسپتال لاہور کے زیر اہتمام ایک مشترکہ تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہوئے جرمنی کے سینیئر ڈاکٹروں نے مقامی آبادی میں جینیاتی عوارض کی خطرناک حد تک بلند شرح کی جانب نشاندہی کی اور کہا کہ خونی رشتہ داریوں کی شرح کچھ دیہی علاقوں میں 78 فیصد سے 100 فیصد تک ہے۔

جرمن حکومت اور آرسینسس انسٹیٹیوٹ (جرمنی) کے اسپانسر کردہ سمپوزیم کا اہتمام اینی میری شمل انسٹیٹوٹ نے ’جینیات ہر ایک لیے اہم ہے‘ کے عنوان سے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: خاندان میں شادیاں بچوں میں جینیاتی بیماری کا باعث

چلڈرن ہسپتال لاہور کے شعبہ پیڈیاٹرک گیسٹرونٹرولوجی کی سربراہ پروفیسر ہما ارشد چیمہ نے کہا کہ ’ہم نے اب تک ملک کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں بچوں سمیت 30 ہزار خاندانوں کے ٹیسٹ کیے ہیں جن کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے 70 فیصد سے زائد بیماریوں کی ترسیل کا سبب ہیں‘۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ہما نے کہا کہ تحقیق سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ کزنز اور ایک ہی برادری میں شادیوں سے پاکستان میں معذور بچوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں کزنز میرج یا ایک ہی برادری میں شادی کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں پرزور تجویز دوں گی کہ اس طرح کا فیصلہ کرنے سے قبل خطرے کا جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے اور شادی سے قبل اسکریننگ ٹیسٹ لازمی قرار دیا جانا چاہیے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں کسی جینیاتی بیماری میں مبتلا فرد کی تشخیص کی کوئی سہولت موجود نہیں اور تشخیص تک رسائی بھی محدود ہے کیوں کہ جینیاتی ٹیسٹنگ بہت مہنگی ہے اور پاکستان میں کوئی سرکاری ہسپتال مفت میں جینیاتی بیماری کی ٹیسٹنگ نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں: کیا کزن میرج مستقبل کی اولاد کے لیے خطرناک ہوتی ہے؟

پروفیسر ہما ارشد کا کہنا تھا کہ کراچی کے بڑے نجی ہسپتال جینیاتی بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے بیرونِ ملک بھجواتے ہیں، اسی طرح لاہور کے 2 نجی ہسپتال بھی بیرونِ ملک سے یہی سہولت حاصل کر رہے ہیں اور ہر ٹیسٹ 3 لاکھ روپے کا ہوتا ہے جو بہت مہنگا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم مریضوں کو یہ سہولت مفت فراہم کر رہے ہیں اور ملک بھر سے 3 لاکھ افراد کے ٹیسٹ کرچکے ہیں جس کے نتائج خاصے خطرناک ہیں اور 70 فیصد سے زائد افراد کینسر، جگر، گردے اور دماغ کی بیماریوں جیسی بیماریوں کے جینیاتی عوارض میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے اور سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں آگاہی نہیں دی تو ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں