گہری کھائی سے معجزاتی طور پر بچائے گئے کان کن شاداں

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2022
چھ کان کنوں کو منہدم ہونے والی کان سے نکالنے کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا — فوٹو: ڈان
چھ کان کنوں کو منہدم ہونے والی کان سے نکالنے کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا — فوٹو: ڈان

کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 30 سالہ محمد عمر کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا زندہ رہنا ایک معجزہ ہے کیونکہ ہم 1300 فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تھے اور پانچ دن کچھ کھائے یا پیے بغیر گزر چکے تھے، تو اللہ نے واقعی ہمیں ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔

انہیں ان کے پانچ ساتھی کان کنوں کے ساتھ منہدم ہونے والی کان سے نکالنے کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں کان کنوں کے حقوق کی خلاف وزری پر تشویش ہے، ایچ آر سی پی

یہ چھ افراد 22 مارچ کو ضلع ہرنائی کے علاقے تور گھر میں میتھین گیس کے دھماکے کے بعد کان کے اندر پھنس گئے تھے، تین مزدوروں کو 24 گھنٹوں کے اندر بچا لیا گیا جبکہ تین دیگر پانچ دن تک 1300 فٹ کی گہرائی میں پھنسے رہے تھے۔

دھماکے کے سبب باہر نکلنے کا واحد راستہ ختم ہوگیا تھا کیونکہ کان کے مالک نے انہیں ہنگامی بنیادوں پر باہر نکالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک گہری سیاہ کھائی میں پھنس گئے تھے جہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، کان کا منہ بند ہوگیا تھا اور ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔

محمد عمر نے خوشی کے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیسے سانس لے سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر لمحہ ہمیں موت کے منہ میں لے جا رہا تھا لیکن اللہ نے ہمیں مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا جس کی بدولت امدادی ٹیمیں ہم تک پہنچ سکیں، وہ ہمیں بلیک ہول سے زندہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل

کان سے زندہ نکالے گئے کان کنوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے، اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے، ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے ڈان کو بتایا کہ ان کی حالت جلد بہتر ہو جائے گی کیونکہ وہ مسلسل نگرانی میں ہیں۔

چیف انسپکٹر آف مائنز عبدالغنی مشوانی نے بتایا کہ زہریلی میتھین گیس کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ایک پائپ کے ذریعے ہم نے متبادل طریقے سے ان کے لیے آکسیجن کا بندوبست کیا تھا۔

کان کنوں کے زندہ حالت میں کان سے نکالنے کے لیے چار ٹیموں نے دن رات محنت کی۔

کان کے مالک سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن مسلسل رابطے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان سے 7 کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں

یہ اس مخصوص کان میں پچھلے تین سالوں میں پیش آنے والا دوسرا حادثہ ہے، صوبائی سیکریٹری برائے کان کنی سید ظفر بخاری نے ڈان کو بتایا کہ 2019 میں میتھین گیس کے دھماکے کے بعد کان بند ہوگئی تھی جس میں متعدد افراد کی جانیں گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ مالک نے عدالت سے بری ہونے کے بعد کان میں دوبارہ کام شروع کردیا تھا۔

بلوچستان تیل و گیس، سونا، چاندی، تانبا، لوہا، ماربل، کرومائیٹ، کوئلہ جیسے معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔

صوبے میں کوئلے کی کان کنی تقسیم ہند سے پہلے شروع ہوئی تھی، کوئلے کے سب سے بڑے کھیپ کوئٹہ، مچھ، مارواڑ، ہرنائی اور لورالائی میں ہیں۔

ان سانحات کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے، گیس کے دھماکے تواتر سے ہوتے رہتے ہیں کیونکہ نہ تو حکام اور نہ ہی مالکان مزدوروں کی حفاظت کے بارے میں کسی قسم کا خیال رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان میں گیس بھرجانے سے دھماکا،4 کان کن جاں بحق

2011 میں پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی جانب سے کوئلہ نکالنے کے لیے ساڑھے 4 ہزار فٹ کی گہرائی میں دھماکے کے بعد سورنج میں پی ایم ڈی سی کی زیر ملکیت کان میں کم از کم 43 کان کن ہلاک ہو گئے تھے۔

سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سلطان محمد نے کہا کہ کوئلے کی کانوں میں دھماکا خیز مواد کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

1892 میں ہرنائی کے علاقے خوست زردالو میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک کان میں دھماکے کا حکم دیا تھا جس میں 400 سے زائد مزدور اور انجینئر مارے گئے تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سینئر اہلکار پین مین کے بیٹے کی بھی اس دھماکے میں موت ہو گئی تھی۔

صوبائی سیکریٹری سید ظفر بخاری کے مطابق کوئلہ نکالنے کے لیے مزدوروں کو اندر جانے کی اجازت دینے سے پہلے کان میں میتھین کی موجودگی کی جانچ کرنا لازمی ہے لیکن مالکان حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان میں گیس بھرنے سے 3 کان کن جاں بحق

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر حادثات کانوں کے اندر میتھین گیس جمع ہونے کی وجہ سے پیش آئے۔

400 سے زائد اموات

گزشتہ چند سالوں میں بلوچستان بھر میں حادثات میں 444 کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔

مائن ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سلطان محمد نے کہا کہ صرف پچھلے تین ماہ کے دوران 39 کان کن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ زیادہ تر کانیں غیر قانونی طور پر چلائی جا رہی ہیں لیکن حکام کرپشن کے سبب انہیں بند نہیں کرتے۔

سلطان محمد نے الزام لگایا کہ زیادہ تر ٹھیکیدار نہ تو فرار کے راستے بناتے ہیں اور نہ ہی وینٹی لیٹر کا نظام فراہم کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: پہاڑ کا ایک حصہ بیٹھ جانے سے 2 کان کن جاں بحق

حکام نے کوئلے کی کانوں کی تعداد 1600 کے لگ بھگ بتائی ہے جبکہ غیر سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں کوئلے کی قانونی اور غیر قانونی کانوں کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہے۔

سیکریٹری مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ کے مطابق صوبے میں صرف 160 کانیں لیز پر دی گئی ہیں، انہوں نے غیر قانونی کانوں کے موجودگی کو تسلیم کیا کیونکہ مالکان اس کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں