صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2022
مخدوم علی خان نے کہا کہ ریفرنس میں سیاسی سوالات پوچھے گئے ہیں اور عدالت کو سیاست سے دور رہنا چاہیے— فائل فوٹو:اے پی پی
مخدوم علی خان نے کہا کہ ریفرنس میں سیاسی سوالات پوچھے گئے ہیں اور عدالت کو سیاست سے دور رہنا چاہیے— فائل فوٹو:اے پی پی

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے سے متعلق ریفرنس کی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کی تشریح کے دور رس نتائج ہوں گے جبکہ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے آج اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھائے کہ کیا صدر ہم سے رائے طلب کر سکتے ہیں؟ کیا ریفرنس میں دی گئی رائے کا اسمبلی کارروائی پر لازمی اطلاق ہوگا؟ کیا ریفرنس اسمبلی اور صدر کی ایڈوائس پر جمع کرایا گیا؟

وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ تمام سوالات اٹارنی جنرل سے متعلق ہیں، اٹانی جنرل ان سوالا ت کا جواب دے سکتے ہیں، حسبہ بل فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کی رائے پر اطلاق لازم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 5سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نااہلی کا اطلاق کیسے کردیں، سپریم کورٹ

مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حکومت عدالتی فیصلے کی بجائے صدارتی ریفرنس کے زریعے تاحیات نااہلی مانگ رہی ہے، حکومتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات مبہم اور عمومی نوعیت کے ہیں، ریفرنس کیلئے آئین دو آرہ بنانے کا کہا گیا ہے، حکومت نے ریفرنس کے ذریعے اب کیوں سوال پوچھا ہے، سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے ناقابل تردید شواہد ہونے کی دلیل دی گئی، ایک سال گزر گیا لیکن حکومت نے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے شواہد پر کیوں کاروائی نہیں کی، ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال سیاسی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ منحرف رکن ہونا غلط بات نہیں، سوال یہ ہے کہ پارلیمان نے خود سے نااہلی کی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف رکن کے خلاف کاروائی کیلئے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فورمز موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی کی میعاد کیا ہوگی۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ منحرف رکن کیخلاف کاروائی غلط ہے، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی تک ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حکومت نے عملی اقدامات نہیں اٹھائے، وزیر اعظم نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہلی نہیں، سپریم کورٹ بار

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے، موجودہ صورتحال تو منحرف رکن کا معاملہ ہے۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے اخلاقیات کی بات نہیں کرتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون رشوت لیکر ووٹ فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا، سینیٹ الیکشن میں پیسے لیکر ووٹ فروخت کرنے کا الزام تھا، منحرف اراکین کامعاملہ مختلف ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کو شفاف ٹرائل، الزامات کی تصدیق کے بغیر تاحیات نااہل کیسے کردیں، کیا منحرف رکن کو پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن کی بنیاد پر تاحیات نااہلی قرار دیا جاسکتا ہے۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ حکومت کا تو مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر آئین کو ری رائٹ کرے، صدر مملکت نے ایسے وقت میں ریفرنس کیوں سپریم کورٹ بھیجا جب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی، صدر کی جانب سے ایسے وقت میں ریفرنس دائر کرنا سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے زندہ دستاویز کا حصہ ہے، ہمارے نظام میں نقائص ہیں، خود طے کرنے کی بجائے ہمارے پاس کیوں آئے؟

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے اخلاقیات کی بات نہیں کرتا۔

جسٹس منیب اختر قانون رشوت لیکر ووٹ فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا، سینیٹ الیکشن میں پیسے لیکر ووٹ فروخت کرنے کا الزام تھا، منحرف اراکین کامعاملہ مختلف ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کو شفاف ٹرائل، الزامات کی تصدیق کے بغیر تاحیات ناہل کیسے کردیں؟ کیا منحرف رکن کو پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن کی بنیاد پر تاحیات نااہلی قرار دیا جاسکتا ہے؟

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ حکومت کا تو مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر آئین کو ری رائٹ کرے، صدر مملکت نے ایسے وقت میں ریفرنس کیوں سپریم کورٹ بھیجا جب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی، صدر کی طرف سے ایسے وقت میں ریفرنس دائر کرنا سوالیہ نشان ہے۔

مزید پڑھیں: سینئر وکیل نے آرٹیکل 63-اے سے متعلق ریفرنس میں صدر کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھادیے

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے زندہ دستاویز کا حصہ ہے، ہمارے نظام میں نقائص ہیں، خود طے کرنے کی بجائے ہمارے پاس کیوں آئے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں منحرف اراکین کو پارٹی سربراہان نے قبول کیا ۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ سیاست میں عجوبے ہوتے رہے ہم ذمہ دار ہیں، منحرف رکن کو پارٹی سربراہ شوکاز نوٹس جاری کرکے سن سکتا ہے، ہوسکتا ہے پارٹی سربراہ منحرف رکن کے جواز سے مطمئن ہو جائے، اسپیکر 14 دنوں میں اجلاس بلانے کا پابند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اسپیکر کی کاروائی کو زیر بحث نہیں لائیں گے۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ ریفرنس 21 مارچ کو دائر کیا گیا۔

سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کے وکیل نے کہا کہ 20 مارچ کو اسمبلی اجلاس کا نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا 25 مارچ کو اجلاس ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے تشکیل دیے گئے بینچ پر اعتراض

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ 22 مارچ کو 14 دن مکمل ہوچکے تھے، ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا مقصد درست معلوم نہیں ہوتا، ریفرنس بد نیتی پر مشتمل ہے یا نہیں یہ سوال ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ سیاست سے متعلق ہے، ریفرنس کی ٹائمنگ کا آپ نے سوال اٹھایا۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ حکومت کو ایک سال پہلے خرابی کی نشاندہی کرائی تھی لیکن پھر 21 مارچ کو ریفرنس کیوں دائر کیا گیا؟ ایسے وقت میں صدر نے ریفرنس دائر کرکے ہماری تکریم اور وقار پر سمجھوتہ کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حیران ہیں آپ صدر کے نیوٹرل ہونے پر بات کررہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ہم سے چاہتے ہیں کہ رائے دینے سے پہلے ہم ٹائمنگ ہو دیکھیں؟

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ میں صرف ٹائمنگ کو عدالت کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کی تشریح کے دور رس نتائج ہوں گے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں آرٹیکل 184 کی شق 3 میں آئین کی تشریح کی ہے

نماز کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسے شواہد ہیں کہ پارٹی سربراہ نے صدر مملکت کو بتایا ہو کہ اراکین منحرف ہو سکتے ہیں؟ صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدارتی ریفرنس پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل

جسٹس مظہر عالم میاں نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت کا سربراہ کس طرح کی ہدایات دے سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس مظہر عالم نے مخدوم علی خان کو ایک دستاویز دی تھی، مناسب ہو گا اگر ہمیں بھی کاپی مل جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دستاویز چھوڑیں ہم واپس لیتے ہیں۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ ہم بس یہ جاننا چاہتے تھے کہ عدالتی آبزرویشن پر کوئی ہدایات جاری نہ کی گئی ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت عدالتی کاروائی کی بنیاد پر کچھ کرہی نہیں رہی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت کم ہے، ریفرنس کے سوا کسی معاملے کو نہیں دیکھنا چاہتے۔

مخدوم علی خان نے عمران خان اور عائشہ گلالئی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے آئین میں جماعت میں شامل ہونے کا طریقہ کار ہے مگر پارٹی چھوڑنے کے نتائج نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس معاملے پر یہ ثابت نہیں کہ پارٹی رہنما نے تحریری ہدایات جاری کیں

جسٹس جمال خان نے کہا کہ انحراف پر نوٹس جاری کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسے شوکاز دینے کی وجہ موقع دینا ہے کہ منحرف رکن موقف پیش کرسکے یا یہ وجہ ہے کہ اسے تاحایت نااہل کیا جا سکے۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ نوٹس دینے کی وجہ قانونی ضوابط پورے کرنا ہوسکتا ہے

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فرض کریں ایک شخص منحرف ہوجاتا ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ انحراف گھناؤنا جرم ہے، کیا اس کے بعد بھی اعلامیہ جاری کرنے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ پارٹی رہنما ڈیکلریشن دیتا ہے، اس اعلامیے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن مزید کاروائی کرسکتا ہے، اگر پارٹی رہنما فیصلہ کرلیتا ہے کہ مزید کاروائی کی ضرورت نہیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ ہاؤس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز ہے، سخت ایکشن پلان کر رہے ہیں، فواد چوہدری

چیف جسٹس نے کہا کہ غلط اقدام کی مذمت ہونی چاہیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سے بے وفائی پر ممبر تاحیات نا اہل ہوسکتا ہے،

وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ حقائق اور حالات ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کی بات کی گئی ہے، پارٹی ڈیکلریشن اہم ہے اس کے بعد ہی مزید کاروائی ہوسکتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا اس ریفرنس کا مقصد تحریک عدم اعتماد کو متاثر کرنا ہوسکتا ہے؟

وکیل ملسم لیگ (ن) نے کہا کہ وقت دیکھ لیں تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے، اسلام آباد سیٹ پر سینیٹ الیکشن کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں گے، وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب واضح ہو کہ ممبر منحرف ہے تو شوکاز جاری کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر ہم یہ قرار دیں کہ انحراف بہت گھناونا جرم ہے، کیا وزیراعظم انحراف کو معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

(ن) لیگ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر جماعت کا سربراہ شوکاز کے جواب سے مطمئن ہو تو انحراف پر معاف کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہاؤس پر صوبائی پولیس کی موجودگی پر انتظامیہ کو تشویش

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ غلطی کو کلیئر کیا جا سکتا ہے اس کی گنجائش موجود ہے

(ن) لیگ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ موجودہ ریفرنس میں کوئی پارٹی ڈکلیریشن یا شوکاز نوٹس نہیں، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے لیے تمام حقائق مسنگ ہیں، عدالت بیرونی صورتحال سے غیر جانبدار ہو کر خلا میں فیصلہ نہیں دے سکتی ،وزیراعظم نے سینیٹ الیکشن کے بعد کہا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں گے، وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر ان کے اراکین کو اعتماد نہیں تو وہ اس کا اظہار کر سکتے ہیں، ریفرنس کی ٹائمنگ سے واضح ہے کہ صدر وزیراعظم کے مقاصد کا حصول کر رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر کو آئینی طور پر وزیراعظم سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔

(ن) لیگ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ صدر کے اختیارات پر مختلف مباحثے ہوتے ہیں، صدر 15 روز کے اندر ریفرنس واپس لے سکتے ہیں ،صدر مملکت ریفرنس کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھ سکتے ہیں ،ضروری نہیں کہ ممبر ووٹ پارٹی کے انتخابی نشان پر لے، ووٹرز کے ساتھ تو دھوکہ دہی کسی آزاد امیدوار کی جیت کے بعد سیاسی جماعت میں شمولیت سے بھی ہو سکتی ہے، ووٹرز کے حقوق کی خلاف ورزی صورتحال کی بنیاد پر تصور کی جا سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے آزاد امیدواروں کے بارے میں نہیں ایک خاص جماعت کی ممبران کے انحراف سے متعلق ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ریفرنس میں سیاسی سوالات پوچھے گئے ہیں اور عدالت کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام جمہوریت میں پارٹی پالیسی کی اپنی اہمیت ہے۔

وکیل (ن) لیگ نے کہا کہ وقت اور حالات کے تحت ہمیشہ ارتقائی عمل جاری رہتا ہے، آج جس چیز کو غیر آئینی کہا کل کو وہ آئینی ہوسکتی ہے، بھیجا گیا صدارتی ریفرنس محض تصوراتی ہے، رکن قومی اسمبلی اپنے شعور کے تحت ووٹ ڈال سکتا ہے، رکن قومی اسمبلی انتخابی نشان پر انتخاب لڑتا ہے، ہر پارٹی کا اپنا انتخابی نشان ہوتا ہے، پارٹی زیادہ تر الیکٹیبلز کو ہی ٹکٹ دیتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ سیاست ہے پارٹی ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ ٹکٹ اس کو دیا جائے جو جیت سکے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ آزادانہ امیدوار تمام پارٹیز کو شکست دیتا ہے، جیت کے بعد کسی کے ساتھ شامل ہو جائے تو یہی تصور کیا جاتا ہے کہ ووٹر سے بے وفائی کرلی؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار کو آئین حق دیتا ہے کہ کسی پارٹی میں شامل ہو، اگر وہ سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو پارٹی پالیسی کا پابند ہوگا، لیکن یہ ممکن ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر آرٹیکل 63 کا اطلاق نہ ہو، لیکن آزاد ممبر کی سیاسی پارٹی میں شمولیت کے بعد انحراف پر سیاسی نتائج ہوسکتے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ ماضی میں تین دفعہ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اگلے نکتے پر دلائل دیں۔

(ن) لیگ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی سوالات سے متعلق عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کروں گا، عدالت کہہ چکی ہے کہ سیاسی سوالات سے اجتناب کیا جائے، عدالت صرف قانونی سوالات کے جوابات دینے کی پابند ہے، خارجہ امور، معاشی معاملات، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے معاملات سیاسی نوعیت کے ہیں، عدالت خود سیاسی و قانونی سوالات کی وضاحت کردی ہے، ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات عدالتی معیار پر پورے نہیں اترتے تو عدالت انہیں مسترد کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اہم نکات اور سولات اٹھائے ہیں، کچھ معاملات سیاسی پراسس کے لیے رہنے دیے جائیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر کو ایک بجے تک ملتوی کردی۔

’سندھ ہاؤس حملے میں ملوث پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری‘

قبل ازیں سماعت کے آغاز پر آئی جی اسلام آباد نے سندھ ہاؤس پر حملے میں ملوث ملزمان سے متعلق اسلام آباد پولیس کی رپورٹ پیش کی، رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ توصیف خان نامی کارکن کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے، بعض ملزمان کا تعلق کے پی کے اور سندھ سے ہے، سندھ ہاؤس حملے میں ملوث پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں، قومی اسمبلی اجلاس چل رہا ہے، دونوں اراکین کو گرفتار کیا جائے گا۔

سندھ ہاؤس پر حملے سے متعلق پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 16 ملزمان نامزد ہوئے۔

عدالت نے کہا کہ پولیس اپنی کاروائی جلد قانون کے مطابق پوری کرے، پولیس اپنی رپورٹ پیر تک جمع کروائے۔

رضا ربانی نے کہا کہ ہم نے پارلیمان کا ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔

پس منظر

یاد رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا گیا تھا، ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے گئے ہیں:

  • آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:

i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔

ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

  • کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟

  • کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟

  • موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں؟

واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں