حکومت متنازع پیکا آرڈیننس کو منسوخ کر سکتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت ہتک عزت کو قابلِ سماعت اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے سکتی ہے — فائل فوٹو: ویب سائٹ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت ہتک عزت کو قابلِ سماعت اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے سکتی ہے — فائل فوٹو: ویب سائٹ اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے ترمیم شدہ متنازع آرڈیننس کو منسوخ کر سکتی ہے اور ہتک عزت کو قابلِ سماعت اور ناقابل ضمانت جرم قرار دے سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے پیکا آرڈیننس اور اس کے سیکشن 20 کے خلاف دائر ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کے دوران بدھ کو کہی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں پر دوبارہ سماعت شروع کی۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

چونکہ اٹارنی جنرل نے پچھلی سماعت کے دوران نشاندہی کی تھی کہ سائبر کرائمز بالخصوص خواتین کے استحصال کے انسداد کے لیے آرڈیننس کے ذریعے ترمیم ناگزیر ہے، اس لیے چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود سے کہا کہ وہ پیکا کے مختلف سیکشنز کے تحت طے شدہ جرائم کا مطالعہ کریں۔

حکومت کے لا افسر نے کہا کہ سیکشن 3 سے 19 انفارمیشن سسٹم، جرائم کی نمائش، سائبر دہشت گردی، نفرت انگیز تقریر، دہشت گردی کی مالی معاونت اور الیکٹرانک فراڈ سے متعلق ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سیکشن 21 اور 22 قابل اعتراض مواد اور چائلڈ پورنوگرافی کو اپ لوڈ کرنے سے متعلق ہیں، ان کے مطابق ان جرائم کی سزا سات سے دس سال تک کی قید ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وجہ پوچھی کہ پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ہتک عزت کو قابل سماعت اور ناقابل ضمانت جرم کیوں قرار دیا گیا، جب پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 499 میں ہتک عزت درج ہے تو حکومت نے سائبر قانون میں ترمیم کر کے ہتک عزت کو جرم کیوں قرار دیا جس کی سزا پانچ سال قید ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے نشاندہی کی کہ ہتک عزت کا قانون تقسیم سے پہلے کے دور میں بھی موجود تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے، پیکا آرڈیننس واپس لیں، وفاقی وزیر کا عمران خان کو خط

اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی آزاد ملک میں نوآبادیاتی قانون ہو تو اس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لا افسر کی توجہ پیکا قانون کے غلط استعمال، خاص طور پر صحافیوں اور مخالفین کی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہونے کی جانب مبذول کرائی، انہوں نے دو مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ صحافی بلال غوری کے کیس میں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ نے پہلے سے شائع شدہ کتاب کے مواد کو پڑھنے کے لیے دفعہ 20 کا اطلاق کیا۔

ایک اور مثال میں ایف آئی اے نے وفاقی وزیر مراد سعید کی شکایت پر لاہور میں صبح 9 بجے میڈیا کے نمائندے محسن بیگ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جو اس وقت اسلام آباد میں تھے اور ساڑھے 9 بجے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی وزیر کی شکایت ایف آئی اے کے لاہور آفس کو کیسے پہنچائی گئی اور متعلقہ کورئیر کمپنی سے رسید کی کاپی مانگ لی۔

مزید پڑھیں: پیکا ترمیمی آرڈیننس کےخلاف وکلا، صحافتی برادری اور اپوزیشن سرگرم

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال اور صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والے افراد کو گرفتار اور سزا دینے کی کئی مثالیں موجود ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 19 میں درج آزادی اظہار کی روح کے خلاف ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ پوری دنیا میں کم از کم ایک مثال پیش کریں جہاں کسی ملک نے پراسیکیوشن ایجنسی کو کسی بھی شہری کو ہتک عزت کے الزام میں گرفتار کرنے اور جیل بھیجنے کا اختیار دیا ہو۔

قاسم ودود نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے حکومت پیکا آرڈیننس کو منسوخ کر سکتی ہے۔

اس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے مقدمے کی سماعت 4 اپریل تک ملتوی کر دی اور اس دن عدالت اس معاملے میں حتمی دلائل سنے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

پی ٹی آئی حکومت نے ایک ایسے وقت میں آرڈیننس جاری کیا تھا جب پیکا کے سیکشن 20 کی قانونی حیثیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پہلے ہی زیر غور تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں