90 فیصد گھریلو، صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے، سیپا

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2022
صنعتوں کے فضلے میں مضر صحت مواد، بھاری دھاتیں، تیل وغیرہ شامل ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
صنعتوں کے فضلے میں مضر صحت مواد، بھاری دھاتیں، تیل وغیرہ شامل ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ سندھ (سیپا) کا کہنا ہے کہ سیوریج کا پانی، صنعتوں، پورٹ، مویشیوں اور مذبح خانوں کا فضلہ سمندر میں پھینکے جانے کے سبب سمندری ماحول تباہ کُن مناظر پیش کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہر میں کام کرنے والے اداروں اور مختلف محکموں کی ناک کے نیچے گندگی سمندر میں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل نے سمندری اور بندرگاہوں کی حدود میں آلودگی کو براہِ راست اور بالواسطہ کنٹرول کرنے والے ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کے اجلاس میں حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صنعتوں سے خارج ہونے والا تقریباً 90 فیصد فضلہ صفائی کے طریقہ کار کے بغیر سمندر میں جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: سمندری آلودگی: ’پاکستان کو سالانہ کئی ارب کا نقصان'

اجلاس میں کہا گیا کہ سندھ میں کراچی کی ٹینریز اور کوٹری کے علاوہ کہیں بھی کمبائنڈ انفلوئینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ (سی ای ٹی پی) نہیں ہے اور مذکورہ پلانٹ بھی غیر فعال ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر 2018 میں کراچی کے لیے تشکیل دیے گئے عدالتی کمیشن نے 5 ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانے کی تجویز دی تھی جو اب تک قائم نہیں ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں حکومت سندھ، موسمیاتی تبدیلی اور محکمہ سمندری تبدیلی کی جانب سے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی حکومت کے سینئر عہدیداران، پورٹ قاسم اتھارٹی کے چیئرمین، کراچی فش ہاربرز اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل، سندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی، پاکستان میری ٹائم اتھارٹی اور کراچی میونسپل کارپوریشن سمیت دیگر عہدیداران نے شرکت کی۔

سی ای ٹی پیز نصب کرنے کی کوششیں تیز کرنے کی ہدایت

افتتاحی کلمات میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری محمد حسن اقبال نے کہا کہ اجلاس کا مقصد نہ صرف مختلف سرکاری، نیم سرکاری، خود مختار اور نجی شعبے کی تنظیموں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر مجموعی کارکردگی سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ تیزی سے انحطاط پذیر سمندری ماحول کو بہتر بنانا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تیل سے آلودہ سمندری پانی سے اپنے بچے کو بچانے والی ڈولفن

انہوں نے صوبائی محکمہ صنعت سے کہا کہ وہ کراچی کے مختلف صنعتی زونز میں 5 سی ای ٹی پیز کی تنصیب کے حوالے سے اپنی کوششوں کو تیز کرے۔

یہ سی ای ٹی پیز زون صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی مالی معاونت سے بنائے جائیں گے۔

انہوں نے اس سلسلے میں مسلسل کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں متعلقہ اسکیموں کی منظوری دی جائے اور تمام ضروری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فنڈز جاری کیے جائیں۔

پی کیو اے کا پلانٹ

پی کیو اے کے چیئرمین ریٹائرڈ ایڈمرل سید حسن ناصر شاہ نے 60 لاکھ گیلن یومیہ (ایم جی ڈی) کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گندے پانی کو صاف کرنے والے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تیاری جاری ہے۔

مزید پڑھیں: بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے تمر کے جنگلات کی تباہی

انہوں نے کہا کہ اس کی کاغذی کارروائی جاری ہے اور مقررہ وقت پر اس کی تنصیب شروع ہو جائے گی۔

انہوں نے سیپا اور صوبائی محکمہ ماحولیات پر زور دیا کہ وہ اپنی ریگولیٹری کوبہتر بناتے ہوئے فضلے کو براہ راست سمندر میں خارج کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

سید حسن ناصر شاہ نے کہا کہ ’یہ تمام صنعتوں کی ذمہ داری ہے کہ فضلہ ماحول میں خارج کرنے سے قبل اس میں ماحول کو نقصان پہنچانے والے عناصر سے پاک کیا جائے، یہ فضلہ آبی حیات کو بھی متاثر کر رہا ہے‘۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیپا کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ (سائٹ) اور کورنگی انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ پاکستان کی دو بڑی اسٹیٹس ہیں لیکن ان کے پاس ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود نہیں ہے۔

صنعتوں کے فضلے میں مضر صحت مواد، بھاری دھاتیں، تیل وغیرہ شامل ہیں جبکہ فضلہ دریاؤں، نالیوں اور پہلے سے آلودہ بندرگاہوں میں پھینکا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سمندری ماحول کو آلودہ کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے تو قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے مختلف حربے اپنائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی صنعتیں سندھ ماحولیاتی تحفظ کے ایکٹ 2014 کی تکمیل کو یقینی بنانے کے بجائے، پیسے کسی دوسرے محکمے کو دے دیتی ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس قائم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ علیحدہ سسٹم کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

170 صنعتوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ تنصیب

سیپا کے اقدامات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے نعیم احمد مغل نے کہا کہ سیپا کے کہنے پر 170 صنعتیں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا چکی ہیں جبکہ 87 ٹینریز نے کراچی کے کمبائنڈ ٹریٹمنٹ پلانٹ میں اپنا فضلہ ٹریٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا مبارک ولیج کے قریب سمندری آلودگی کا نوٹس

انہوں نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر زور دیا کہ وہ واٹر کمیشن کی ہدایات کے مطابق ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹی پی ون، ٹی پی ٹو، اور ٹی پی فور کی تنصیب مکمل کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اپنے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تزئین و آرائش کر رہی ہے اور اسے محمود آباد ڈرین سے جوڑنا چاہیے اور پی کیو اے کو اپنے تین صنعتی زونز کے لیے اپنے مجوزہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے قیام کو یقینی بنانا چاہیے۔

نعیم احمد مغل نے آگاہ کیا کہ اب تک سیپا نے ماحولیاتی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی صنعتی اکائیوں کے خلاف 152 مقدمات ٹربیونل میں اور 384 جوڈیشل مجسٹریٹس کے سامنے دائر کیے ہیں، 149 خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا سنائی جاچکی ہے جبکہ ایک کروڑ 95 لاکھ روپے کے جرمانے وصول کیے گئے۔

انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ’محکمے نے سندھ کے ساحلی زون کے ممکنہ علاقوں میں سندھ کی سالانہ ترقیاتی اسکیم کے ذریعے 3 ہزار 500 ہیکٹر رقبے پر مینگرووز بھی اگائے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں