Dawnnews Television Logo

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے وزیراعظم کے ’بچ نکلنے‘ تک کا سفر

وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔
اپ ڈیٹ 03 اپريل 2022 03:07pm

وزیراعظم عمران کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ کے مسترد ہوجانے کے بعد صدر مملکت نے وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلی تحلیل کردی ہے جبکہ قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کا کہا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے آج کے دن تک ملک کے سیاسی منظرنامے پر اس قدر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ بقول شاعر

شب وصل کیا مختصر ہوگئی

ذرا آنکھ جھپکی سحر ہوگئی

دونوں کیمپوں سے حسبِ معمول بیانات داغنے کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن بیانات میں تلخی کی شدت واضح طور پر محسوس ہوئی جن میں بات ذاتیات تک بھی پہنچی اور کبھی کبھی صورتحال ایسی پلٹی کہ عوام کو چکرا کر رکھ دیا۔

ان 27 روز کے دوران ہماری سماعتوں نے کیا سنا، نگاہوں نے کیا دیکھا ذیل میں ان سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے:

ملکی سیاسی صورتحال کے بظاہر پرسکون سمندر میں تلاطم اس وقت پیدا ہوا جب مہینوں سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد لانے کے منصوبے بنانے والی اپوزیشن نے بالآخر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا ہی دی۔

تحریک جمع ہونے کے باوجود حکومتی حلقوں میں بدستور اطمینان موجود تھا اور دعوے کیے جارہے تھے کہ حکومت باآسانی اس تحریک کو ناکام بنا دے گی۔

اپوزیشن اراکین تحریک عدم اعتماد جمع کراتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز
اپوزیشن اراکین تحریک عدم اعتماد جمع کراتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز

ایسے میں اپوزیشن کو بے چینی لاحق رہی کیوں کہ 14 روز کی آئینی مدت کے مطابق اجلاس طلب کرنے کی آخری تاریخ 22 مارچ تھی جبکہ21 اور 22 مارچ کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیموں کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس بھی متوقع تھا۔

حکومت نے اجلاس کے انعقاد کے لیے قومی اسمبلی کے ہال کا انتخاب کیا تھا جس میں تزئین و آرائش کے کام کے لیے ایوان کو 4 روز کے لیے بند بھی کیا، ان انتظامات کو جواز بنا کر اجلاس طلب کرنے میں تاخیر کی جاتی رہی۔

منحرف اراکین اور ڈی چوک

تحریک پیش کیے جانے کے بعد سے دارالحکومت کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا تھا اور اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں پی ٹی آئی اراکین کی حمایت حاصل ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے۔

اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے منحرف اراکین کو وفاداری بدلنے سے روکنے کے لیے سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کردیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے انتباہ دیا کہ ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ ہوں گے اور دیکھیں گے کہ کس مائی کے لعل میں اتنی ہمت ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ووٹ ڈال کر واپس جاتا ہے۔

حکومت نے پہلے ڈی چوک پر جلسے کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں پریڈ گراؤنڈ منتقل کردیا گیا تھا—تصویر: رائٹرز
حکومت نے پہلے ڈی چوک پر جلسے کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں پریڈ گراؤنڈ منتقل کردیا گیا تھا—تصویر: رائٹرز

دوسری جانب اپوزیشن نے بھی اسی روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کردیا جس کے باعث نقص امن اور تصادم کا خدشہ پیدا ہوگیا جبکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس اقدام سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔

چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پارلیمینٹ ممبران اور سیاسی کارکنوں کے درمیان شاہراہِ دستور پر ممکنہ تصادم کے خدشات کو دور کرتے ہوئے ریڈ زون میں کسی بھی سیاسی اجتماع کے خلاف فیصلہ دیا جس کے بعد حکومت نے پاور شو کے لیے پریڈ گراؤنڈ کا انتخاب کیا جبکہ اپوزیشن سری نگر ہائی وے پر میدان سجانے پر راضی ہوئی۔

دریں اثنا سیاسی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت آئی جب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد منحرف ارکان سندھ ہاؤس اسلام آباد میں موجود پائے گئے جن کا کہنا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔

باقی اراکین اسمبلی سامنے آنے پر پی ٹی آئی کارکنان نے سندھ ہاؤس پر دھاوا بولا تھا—فائل: فوٹو: آن لائن
باقی اراکین اسمبلی سامنے آنے پر پی ٹی آئی کارکنان نے سندھ ہاؤس پر دھاوا بولا تھا—فائل: فوٹو: آن لائن

محرف اراکین نے اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے 24 اراکین ہونے کا دعویٰ کیا تاہم بالکل درست اور حتمی تعداد معلوم نہ ہوسکی۔

ایسے میں پی ٹی آئی کے 2 اراکین قومی اسمبلی کی قیادت میں کارکنان نے منحرف اراکین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سندھ ہاؤس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے، جس میں شامل افراد کو گرفتار کیا گیا بعدازاں رہا کردیا گیا۔

اجلاس طلب کرنے میں غیر معمولی تاخیر

تمام تر صورتحال کے دوران قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیے جانے پر اپوزیشن کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایسے میں انہوں نے حکومت کو دھمکی دی کہ اگر 21 مارچ تک تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں کارروائی شروع نہیں کی گئی تو ایوان میں دھرنا دیں گے جہاں او آئی سی کا اجلاس شیڈول تھا۔

بالآخر 21 مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی نے 25مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ جواز بھی پیش کیا گیا کہ اسمبلی ہال دستیاب نہ ہونے کے بعد دارالحکومت کی انتظامیہ سے بھی مقام اجلاس کے لیے جگہ فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن کوئی جگہ دستیاب نہیں ہوئی۔

آئینی مدت گزرنے کے بعد ہونے والا اجلاس صرف فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: این اے ٹوئٹر
آئینی مدت گزرنے کے بعد ہونے والا اجلاس صرف فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کردیا گیا تھا—فائل فوٹو: این اے ٹوئٹر

بعدازاں 25 مارچ کو اجلاس ہوا تو توقع کے عین مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے مرحوم رکن قومی اسمبلی نے فوت ہونے والے رکن قومی اسمبلی خیال زمان سمیت دیگر مرحومین کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد عجلت میں ملتوی کردیا گیا۔

چنانچہ 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے161 اراکین نے تحریک کی حمایت کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہونے کے بعد کم از کم 3 روز کے بعد اور 7 روز سے پہلے اس ووٹنگ کرانا ہوتی ہے۔

اس کے بعد یکم اپریل کو اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وقفہ سوالات میں اپوزیشن اراکین نے ایک ہی سوال اٹھایا کہ تحریک پر ووٹنگ کب کرائی جائے گی جس کے بعد قرارداد پر بحث کے بغیر ایک مرتبہ پھر اجلاس کو اتوار (آج) تک ملتوی کردیا گیا۔

اتحادیوں کی اڑان

8 مارچ سے 3 اپریل کے دوران جہاں کئی چیزیں اپوزیشن اراکین کے لیے پریشانی کا باعث بنیں وہیں بہت سی باتوں نے حکومتی ایوانوں میں بھی زلزلہ طاری کیا۔

خاص کر منحرف اراکین کے سامنے آنے کے بعد سے صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی اور حکومتی کیمپ میں ہلچل مچ گئی، انحراف کرنے والے اراکین کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے پر سخت انتباہات بھی کیے گئے اور باضابطہ طور پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔

بلوچستان عوامی پارٹی پہلی اتحادی پارٹی تھی جس نے حکومت سے اپنی راہیں جدا کیں—تصویر: اے ایف پی
بلوچستان عوامی پارٹی پہلی اتحادی پارٹی تھی جس نے حکومت سے اپنی راہیں جدا کیں—تصویر: اے ایف پی

تاہم حکومت کی ڈھارس اس وقت بندھی جب اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا جس کے بدلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ اور انہیں ناراض اراکین کی حمایت کا ٹاسک دیا گیا کیا گیا۔

اس پیش رفت کے سامنے آنے کے بعد 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تاہم وزیراعلیٰ نے اسی روز اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردیا جسے 5 روز بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے منظور کرلیا۔

منحرف اراکین کے سامنے آنے پر پارٹی پالیسی سے انحراف کی صورت میں تاحیات نااہلی کی کوشش کر کے دباؤ ڈالا گیا اور اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 63 اے کے تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

تاہم دوسرا بڑا جھٹکا حکومت کو اس وقت لگا جب اپوزیشن اتحاد مرکز اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کے 5 میں سے 4 اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔

اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اپنی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو منانے کی کوششوں میں شدت آگئی اور حکمراں جماعت کے وفود نے اتحادیوں سے کئی ملاقاتیں کیں۔

ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی
ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی

تاہم یہاں بھی حکومت کی کوششیں رائیگاں گئیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی ایک معاہدے کے ساتھ اپوزیشن کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی اور کابینہ میں شامل اس کے دونوں وفاقی وزرا فروغ نسیم اور امین الحق اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔

یوں دو اہم اتحادیوں کے اپوزیشن کی چھتری تلے جانے کے بعد پی ٹی آئی واضح طور پر ایوان میں اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔

وزیراعظم کا ترپ کا پتا

سیاسی اتار چڑھاؤ میں حکومت کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ ترپ کا پتا ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے۔

تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب 'امر بالمعروف' کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔

خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

مذکورہ صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا—تصویر: پی  آئی ڈی
قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا—تصویر: پی آئی ڈی

جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔

بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔

البتہ قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔

جس پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوے محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔

اس مراسلے نے سیاسی حمایت کا پلڑا واضح طور پر وزیراعظم کے حق میں جھکا دیا ہے اور کئی ماہ سے مہنگائی کے باعث مشکلات کا سامنا کرتے عوام کی تنقید کا نشانہ بننے والی پی ٹی آئی حکومت عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

تحریک عدم اعتماد مسترد، اسمبلیاں تحلیل

تاہم آج کا دن اپوزیشن کے لیے بالکل حیران کن رہا اور حکومت نے یکے بعد دیگرے بڑے منصوبہ بندی سے اپنے پتے پھینکے۔

اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی سربراہی میں ہوا جس میں حکومتی اراکین کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی، آغاز میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر اطلاعات و قانون فواد چوہدری نے تحریک عدم اعتماد پر اعتراض اٹھایا۔

وزیر قانون کے اعتراضات کو درست قرار دیتے ہوئے قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا اور ساتھ ہی اسمبلی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔

دریں اثنا وزیر مملک فرخ حبیب نے دعویٰ کیا کہ صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کردی ہے اور 90 روز میں انتخابات ہوں گے جبکہ فواد چوہدری نے بتایا کہ کابینہ تحلیل کردی گئی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان برقرا رہیں گے۔