پی ٹی اے کا ڈاکٹر اسرار احمد کے چینل کی بحالی کیلئے یوٹیوب سے رابطہ

06 اپريل 2022
پی ٹی اے نے استدعا کی کہ ان ویڈیوز کا مقصد صرف ’ناظرین کو آگہی دینا‘ تھا—اسکرین شاٹ/ یوٹیوب
پی ٹی اے نے استدعا کی کہ ان ویڈیوز کا مقصد صرف ’ناظرین کو آگہی دینا‘ تھا—اسکرین شاٹ/ یوٹیوب

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے یوٹیوب سے رابطہ کر کے اپیل کی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے یوٹیوب چینل کو بلاک کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے نے یوٹیوب سے اپنی اپیل میں کہا ’ایک ممتاز مسلم اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کی یکطرفہ بندش آن لائن اظہار رائے کی من مانی حدود کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے‘۔

پی ٹی اے ذرائع نے کہا کہ مذکورہ چینل پر ڈاکٹراسرار احمد کی ویڈیوز نشر کی جاتی تھیں جن میں قرآن پاک میں پیش کردہ سماجی و اقتصادی تصورات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

پی ٹی اے نے استدعا کی کہ ان ویڈیوز کا مقصد صرف ناظرین کو آگہی فراہم کرنا تھا۔

یوٹیوب نے مذکورہ یوٹیوب چینل یہودیوں کے ایک گروپ کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد بند کردیا گیا تھا جن کے مطابق اس چینل پر نشر کی جانے والی ویڈیوز میں ان سے متعلق نفرت انگیز مواد موجود ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر پر ڈاکٹر اسرار احمد کے یوٹیوب چینل کو بحال کرنے کی مہم

ڈاکٹر اسرار کے چینل کے تقریباً 30 لاکھ سبسکرائبرز تھے اور ان کے لیکچرز کو مغربی ممالک میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے سراہا جاتا رہا ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد کے بیٹے کی جانب سے چلائے جانے والے اس چینل پر مرحوم مذہبی اسکالر کی پرانی تقاریر کی ریکارڈنگ نشر کی جاتی تھی۔

یہ ویڈیوز قرآنی آیات کی روشنی میں دنیا کے خاتمے اور تاریخ میں یہودیوں کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات پر مشتمل تھیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک شاگرد نے یوٹیوب کے اس اقدام کو مغرب کی جانب سے آزادی اظہار کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی اے کا یوٹیوب سے ایک بار پھر غیر اخلاقی، فحش مواد ہٹانے کا مطالبہ

انجینیئر محمد علی مرزا نے اپنے یوٹیوب چینل پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں کہا کہ یہ اقدام مغرب کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے دوسرے فریق کو سنے بغیر محض یہودی گروپس کی شکایات کے مطابق عمل کیا‘۔

یوٹیوب کو درج کی گئی شکایات میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کی تبلیغ مسلمانوں کے ذریعہ مغرب میں یہودیوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے سکتی ہے۔

بھارت کی کارروائی

بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں 22 یوٹیوب چینلز کو قومی سلامتی اور امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کردی ہے، ان میں 4 پاکستانی یوٹیوب چینلز بھی شامل ہیں۔

جنوری میں بھارتی حکومت نے جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزام میں 35 یوٹیوب چینلز پرپابندی عائد کردی تھی، اسی طرح دسمبر میں بھی بھارت مخالف مواد نشر کرنے پر 20 یوٹیوب چینلز بلاک کردیے گئے تھے۔

دریں اثنا خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بلاک کیے جانے والے مذکورہ یوٹیوب چینلز کو دیکھنے والوں کی مجموعی تعداد 2 ارب 60 کروڑ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شوبز شخصیات ملک میں یوٹیوب پر ممکنہ پابندی کی مخالف

ایجنسی کے مطابق نئی دہلی نے 18 بھارتی چینلز کو بلاک کرنے کے لیے آئی ٹی قوانین کے تحت ہنگامی طور پر اختیارات کے استعمال کا مطالبہ کیا۔

بھارتی وزیر اطلاعات کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ متعدد یوٹیوب چینلز پر خصوصاً بھارتی افواج سمیت مختلف موضوعات سے متعلق جھوٹی خبریں نشر کی جاتی تھیں۔

بھارتی حکومت گزشتہ سال متعارف کرائے گئے آئی ٹی قوانین کو سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کو روکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’یوٹیوب پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ لانچ‘

بھارت نے گوگل اور فیس بک جیسی ٹیک کمپنیوں سے اپنے پلیٹ فارمز پر موجود ’جعلی خبروں‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فروری میں ہونے والی ایک میٹنگ میں بھارتی حکام نے ٹیک فرمز کو بتایا کہ ان کی بے عملی نے بھارتی حکومت کو مذکورہ مواد ہٹانے کا حکم دینے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تنقید ہوئی کہ حکام آزادی اظہار کو دبا رہے ہیں۔

میٹنگ کے دوران گوگل کی جانب سےکہا گیا کہ بھارت کی وزارت اطلاعات کو مواد ہٹانے کے فیصلوں کو عام کرنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن حکام نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں