ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب، عمران خان 'آؤٹ'

اپ ڈیٹ 10 اپريل 2022
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
عدالت عظمیٰ نے اسمبلی بحال کرتے ہوئے 9 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
عدالت عظمیٰ نے اسمبلی بحال کرتے ہوئے 9 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
عدالت عظمیٰ نے اسمبلی بحال کرتے ہوئے 9 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
عدالت عظمیٰ نے اسمبلی بحال کرتے ہوئے 9 اپریل کو اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی — فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: اے پی
— فوٹو: اے پی

قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی، جس کے بعد وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے اجلاس کے دوران اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی اور سابق اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت شروع کی۔

اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں آکر اراکین سے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایاز صادق سے کہا کہ وہ پینل آف چیئرمین کے رکن کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھیں۔

ایاز صادق نے پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت شروع کی اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کردیا اور اراکین کو طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہی گھنٹیاں بجادیں۔

حکومتی اراکین نے اسمبلی سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ایوان کی نشستیں خالی کردیں تاہم وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان ووٹنگ کے دوران ایوان میں موجود رہے۔

ایاز صادق نے ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ 12 بجے اجلاس ملتوی کرنا ہے کیونکہ نیا دن شروع ہوگا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ووٹنگ شروع کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے ووٹنگ کا عمل شروع کیا اور 12 بج کر دو منٹ تک کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔

دو منٹ کے وقفے کے بعد ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو تلاوت کلام پاک اور نعت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی نوید قمر نے قرارداد پیش کی۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

قرارداد کے بعد اراکین کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹوں کی گنتی کی گئی۔

ایاز صادق نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کی 342 ارکان میں سے 174 اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔

ایاز صادق نے کہا کہ نئے وزیراعظم کے لیے کاغذات نامزدگی سہ پہر دو بجے تک جمع کرائے جاسکیں گے اور نئے وزیراعظم کا انتخاب پیر 11 اپریل کو ہوگا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 11 اپریل تک ملتوی کردیا گیا۔

ہم ماضی کی تلخیوں میں جانا نہیں چاہتے، شہباز شریف

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سب پہلے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے خطاب شروع کیا۔

شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہم سب تمام قائدین تمام اراکین قومی اسمبلی، متحدہ اپوزیشن کے تمام ساتھی اور ہم سب اللہ کے حضور سربسجود ہیں اور اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ آج نئی صبح طلوع ہونے والی ہے، ایک نیا دن آنے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کروڑوں عوام، ماؤں، بیٹیوں اور بزرگوں کی دعائیں اور کاوشیں اللہ نے قبول کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں متحدہ اپوزیشن کے اکابرین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اتحاد، یک جہتی اور انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال کم ملتی ہے، اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، اخترجان مینگل، نوابزادہ بگٹی، امیر حیدر ہوتی، خالد مگسی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ، طارق چیمہ، محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے ساتھ جڑےہوئے لاکھوں اور کروڑوں پاکستانیوں کا ہم سب شکریہ ادا کرتےہیں کہ ان کی قربانیاں رنگ لائی ہیں اور آج پھر آئین اور قانون کا پاکستان دوبارہ بنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد ان شااللہ پاکستان کو دوبارہ تعمیر کرے گا، اپنے قائد نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان تمام ساتھیوں نے جیلیں کاٹی ہیں، تاریخ میں شاید پہلا موقع ہے کہ ہماری بیٹیوں اور بہنوں نے جیلیں کاٹی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف کو کس طرح جیلوں میں بھجوا یا گیا، ہم ماضی کی تلخیوں میں نہیں جانا چاہتے ہیں، اور تلخیوں کو بھول کر آگے جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس قوم کے دکھوں اور زخموں پر مرہم رکھنا چاہتےہیں، ہم کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہیں کریں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم لوگوں کو بے جا اور بے قصور لوگوں کو جیلوں میں نہیں بجھوائیں گے لیکن قانون اپنا راستہ لے گا، انصاف اپنا راستہ لے گا، اس میں نہ میں، نہ بلاول بھٹو، نہ مولانا فضل الرحمٰن اور نہ کوئی اور مداخلت کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کا بول بالا ہوگا، عدلیہ کا احترام صدق دل سے کریں گے، مل کر مشاورت سے اداروں کے ساتھ مل کر اس ملک کو چلائیں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے۔

پرانے پاکستان میں خوش آمدید، بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ میں پورے پاکستان کو اور اس ایوان کو مبارک باد دینا چاہوں کہ پاکستان میں پہلی بار عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے اور ہم نے تاریخ رقم کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 10 اپریل 1973 میں اس ایوان نے 1973 کا آئین منظور کیا تھا، 10 اپریل 1976 بینظیر بھٹو نے جلاوطنی ختم کرکے لاہور تشریف لائی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ آج 10 اپریل 2022 ہے، جس کو ہم نے سلیکٹڈ قرار دیا تھا اور جو غیرجمہوری بوجھ ہم تین سال سے اٹھا رہے تھے آج 10 اپریل 2022 کو پرانے پاکستان کو خوش آمدید۔

ان کا کہنا تھا کہ تین سے 4 سال اس ایوان کا رکن رہا ہوں اور ان برسوں میں سیکھا ہے زندگی بھر نہیں دیکھا، میں نوجوانوں کو پیغام دوں گا اپنے خوابوں کو نہ چھوڑیں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

2018 میں پاکستان میں مسلط ہونے والی غیرآئینی حکمرانی کا خاتمہ ہوا، اسعد محمود

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے جہد مسلسل کے ساتھ آئین کی بالادستی اور حقیقی حکمرانی کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر اپنی منزل پر پہنچ کر پیغام دے رہی ہے کہ ہم 2018 میں پاکستان پر قائم ہونے والی غیر آئینی حکمرانی کا خاتمہ کرکے ایک آئینی حکمرانی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو جدوجہد کی ہے اس کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان کے تمام اداروں کا جنہوں نے اس گھٹن دور میں بھی آئین اور سیاسی قوتوں کے لیے آواز اٹھائی اور مظلوم طبقے کے لیے ایک مجاہد کا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ جن سیاسی کارکنوں نے 2018 کے انتخابات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آئینی اور قانونی جدوجہد کی، آئین اور قانون کو نہیں توڑا اور قانونی جدوجہد کرکے یہ مقصد حاصل کرلیا ہے۔

باپ ہونے کا حق ادا کیا، خالد مگسی

بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ ہم جمہوری عمل کا بھرپور حصہ بنے، 12، 13 گھنٹے کی جدوجہد یہ بھی تاریخ کا حصہ بنے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں آیا تو عجیب طریقے سا تھا لیکن ہم نے باپ ہونے کا حق ادا کیا، باپ پارٹی نے اپنا حق ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 170 میں 4 ملائے اور آپ سب کو 4 نمبر مبارک ہو، اب اللہ توفیق دے کیونکہ ایک بڑی ذمہ داری کیونکہ منزل آج شروع ہوئی ہے۔

خالد مگسی نے کہا کہ شہباز شریف ایک محنتی آدمی ہیں، ان کا تجربہ ہے اور اللہ ان کو توفیق دے گا۔

انہوں نے سب کو مبارک باد دی اور کہا کہ پاکستان کی قوم کو مبارک، ہم بدلہ لینے نہیں آئے ہیں بلکہ خدمت کرنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا میں مولانا فضل الرحمٰن کو ہزاروں بار مبارک دیتا ہوں، زرداری صاحب کو مبارک دیتا ہوں، انہوں نے قدم رکھا، ہمیں لے کر آئے اور جوڑا، بلاول آپ کو سلام ہے، ویلڈن، آپ اس قوم کیلئے ایک زبردست شخص بنو گے۔

تقریر کے اختتام پر انہوں نے ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہا کہ آپ یہاں بیٹھے ہوئے اتنے خوبصورت لگتے، میرا دل چاہتا ہے آپ یہیں بیٹھے رہیں مگر پتا نہیں کیا ہو۔

خالد مگسی کے اس جملے پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو مبارک، ہم بدلہ نہیں لینے آئے، ہم خدمت کرنے آئے ہیں، اللہ ہمیں توفیق دے گا۔

آئین پاکستان کے تابع عدالتیں اور افواج بھی ہیں، اخترمینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل نے کہا کہ آئین پاکستان کے ماتحت یہ آئین، یہاں کی عدالتیں، یہاں کی افواج، یہاں کے عام عوام بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکائیوں کو جوڑ کر رکھنے والا یہ آئین ہے، مگر اس آئین کی جس انداز اور جس طریقے سے جگ ہنسائی کی گئی ہے، یہ بھی تاریخ کے ان اوراق میں سیاہ ترین الفاظ میں لکھی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پاسداری کی ذمہ داری کیا صرف یہاں کے عام لوگوں پر ہے، یہاں پر بیٹھے ہوئے کسٹوڈین کی ہاؤس کی ذمہ داری بنتی ہے، بلکہ یہاں بیٹھے ہوئے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم خود اس آئین کو ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کریں گے تو کون اس آئین کو مانے اور عمل کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ریل کے حادثے میں وزرا استعفیٰ دیتے ہیں لیکن یہاں آئین ٹوٹتا کسی کے کان میں کھجلی تک نہیں ہوتی، اس ملک کو توڑا جاتا ہے، ٹوٹتا نہیں ہے، اپنے ہاتھوں سے توڑا جاتا ہے لیکن اس پر جشن منایا جاتا ہے۔

عمران خان نے غلامی قبول نہیں کی، علی محمد خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد نے اس موقع پر کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں جس آدمی کے ساتھ کھڑا ہوں ان کا نام عمران خان ہے، اس نے حکومت قربان کی لیکن غلامی قبول نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح پہلے اپنی ڈیوٹی سنبھالی تو آج پارلیمانی امور کی ڈیوٹی تمام ہوئی، آج کا دن جہاں بہت سے چہروں کو خوشی دیتےہوئے جا رہا وہی بہت سے سوالات چھوڑ کر جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو دیکھا، ان کو پارلیمانی امور کے وزیر ان کو خوش آمدید کہتا ہوں، لیکن ایک سوال تاریخ ان کے لیے بھی چھوڑے جا رہی ہے جس شخص، جس مرد حر اور مرد بحران کو مولانا فضل الرحمٰن یہودی اور امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ایجنٹ تھا جس کو ہٹانے کے لیے امریکا نے ایڑھی، چوٹی کا زور لگایا۔

اجلاس کی کارروائی

اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہفتہ 9 اپریل کو صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا، جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور قومی ترانہ بجایا گیا۔

ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل خاتون رکن قومی اسمبلی شازیہ ثوبیہ کی وفات پانے والی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی تھی اور شہباز شریف نے سب سے پہلے خطاب کیا جس کے بعد شاہ محمود قریشی نے خطاب شروع کیا مگر اس دوران اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

تاہم دو گھنٹے کے طویل وقفے کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اس کی صدارت امجد خان نیازی نے شروع کی تو دونوں جانب سے رہنماؤں نے طویل تقاریر کیں اور نماز عصر کے لیے 20 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔

نماز عصر کے وقفے کے بعد اجلاس شروع نہیں ہوسکا اور اعلان کیا گیا کہ اب نماز مغرب اور افطار کے بعد ساڑھے 7 بجے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے متعلق اجلاس ایک مرتبہ پھر شروع ہوگا۔

بعد ازاں اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور وفاقی وزیر حماد اظہر کی تقریروں کے بعد ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا لیکن اجلاس دیر گئے تک دوبارہ شروع نہیں ہوسکا۔

رات کو 12 بجے سے قبل اسپیکر اسد قیصر ایوان میں آئے اور بتایا کہ وہ ان کو ملنے والی دستاویزات کے تحت اس کارروائی کو آگے نہیں بڑھا سکتے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہ استعفے کا اعلان کرتےہوئے ایوان چھوڑ کر چلے گئے اور ایوان کی صدارت مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق نے سنبھال لی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل کی تقاریر:

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اجلاس سے حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں نے کافی طویل تقاریر کیں۔

اسپیکر توہین عدالت کے مرتکب ہور ہےہیں، بلاول بھٹوزرداری

بلاول بھٹوزرداری نے اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے اسپیکر سے کہا کہ آپ اس وقت نہ صرف توہین عدالت کر رہے ہیں بلکہ آئین شکنی میں بھی ملوث ہور ہےہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے 5 رکنی بینچ نے حکم سنایا اور اس کے مطابق اس آرڈر کے علاوہ کسی اور ایجنڈہ آئٹم کو نہیں اٹھا سکتے ہیں، آپ اور اس سے پہلے اسپیکر نے بھی ایسا کیا۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ 3 اپریل کو ایک وزیر نے صرف وزیراعظم پاکستان، صدر پاکستان اور ڈپٹی اسپیکر کو آئین شکنی میں پھنسا دیا تھا اور آج کی کوشش کی وجہ نہ صرف وہ لوگ بلکہ اسپیکر اور آپ خود ان جرائم میں ملوث ہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی چیئر نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے ڈومین میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے، ایجنڈا اسپیکر، قومی اسمبلی اور حکومت کا ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ توہین عدالت کرتے ہوئے نااہل ہوجائیں گے، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی عدالت نے اسپیکر کی رولنگ کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سےپہلے ایک اسپیکر صاحبہ اسی کرسی پر بیٹھی تھیں، انہوں نے ایک فیصلہ سنایا لیکن عدالت نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کو مسترد کردیا تھا، ایک دفعہ پھر حکم آیا ہے، عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے کہ آپ نے آج 3 اپریل کی کارروائی مکمل کرنی ہے اور ووٹنگ کروانی ہے۔

کپتان بھاگ رہا ہے، بلاول

ان کا کہنا تھا کہ آپ کا کپتان بھاگ رہا ہے، بھاگتے بھاگتے توہین عدالت اور آئین شکنی کر رہا ہے، اگر آپ خود اس میں ملوث ہونا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بہت پہلے وزیراعظم کو خبردار کیا تھا کہ جو صاحب (وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی) مجھ سے پہلے تقریر کر رہا تھا کہ اس سے بچ کے رہیں ورنہ وہ ان کو پھنسائے گا اور اسی نے ان کو پھنسایا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عمل کرو اور ووٹنگ کروائیں، اگر آپ آج کے ایجنڈے پر نہیں آئے تو پوری اپوزیشن بھی یہاں سےنہیں ہٹے گی اور ہم اپنا آئینی حق حاصل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج دفترخارجہ کو استعمال کرکے، جعلی کیبل استعمال کرکے آپ کو آئین شکنی اور توہین عدالت پر مجبور کر رہےہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اکثریت اس طرف ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اکثریت کھو بیٹھے ہیں، بیرونی سازش ایجنڈے سے باہر ہے، اس پر بحث ہم 100 دن بھی کرسکتے ہیں، پہلے عدالت کا حکم مانیں۔

تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش کہنا جھوٹ ہے، چئیرمین پیپلزپارٹی

وزیرخارجہ کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی کہانی میں جھوٹ ہے، سب سے پہلا جھوٹ ہے کہ 7 مارچ کو یہ بات ہوئی اور 8 مارچ کو ہماری عدم اعتماد یہاں جمع ہوئی، امریکا اور پاکستان میں وقت کا فرق ہے، وہاں 7 مارچ ہے تو یہاں 8 مارچ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بقول جب ملاقات جاری تھی، اسی وقت ہم نے تحریک جمع کروائی، جو بھی عمران خان کو یہ مشورہ دے رہے ہیں، ان کو میں جانتا اور پہچانتا ہوں، وہ خان صاحب کے لیے نہیں اپنے لیے سوچ رہے ہیں اور خان صاحب کوپھنسائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا پہلے سے ارادہ تھا کہ عمران خان وزیراعظم سلیکٹ نہیں رہتا ہے تو ہمارے اور ان کے درمیان اختلاف نہیں رہے گا لیکن کپتان جس طرح میدان سے بھاگا اور آج بھی موجود نہیں اور اپنا دفاع نہیں کرسکتا ہے۔

بلاول نے کہا کہ عمران خان اپنا مؤقف نہیں رکھ سکتا ہے، قومی سلامتی کے فورم میں وزیرخارجہ موجود کیوں نہیں تھے، اجلاس کے منٹس نکال کر دیکھیں تو اس میں عدم اعتماد کا ذکر کیوں نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں نہ صرف عدم اعتماد کا ذکر نہیں تھا بلکہ وہ ایک عام سا فیصلہ تھا کہ ہم نے صرف ڈیمارش کرنا ہے، اگر پاکستان کے خلاف کوئی سازش 7 مارچ یا اس سے پہلے ہورہی تھی تو اسی وقت ان کی غیرت جاگنی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی وقت ان کی محب وطن ہونے کا ثبوت سامنے آنا تھا، اسی وقت اپنے اتحادیوں کو کہتے، ہمیں نہ چھوڑیں اور سازش کا حصہ نہ بنیں، ہمیں کہتےعدم اعتماد نہ لائیں اور اس سازش کا حصہ نہ بنیں لیکن اس وقت خیال آیا جب اکثریت کھو گئے تھے۔

یہ لڑائی جمہوریت پسندوں اور غیرجمہوری لوگوں کے درمیان ہے، بلاول

انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی پی ٹی آئی اور پی پی پی یا پی ڈی ایم کی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے چاہنے والے اور غیر جمہوری لوگوں کے درمیان ہے، یہ لڑائی وہ ذمہ دار شخصیات جو غیرجانب دار رہنا چاہتی ہیں، جو غیر سیاسی اور نیوٹرل رہنا چاہتی ہیں ان کے اور ان کے درمیان ہے جو جانب دار رہنا چاہتے ہیں اور مداخلت کرنا چاہتےہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اصل سازش یہ ہے کہ خان صاحب صاف اور شفاف الیکشن سے ڈرتا ہے، عمران خان کو معلوم ہے کہ صاف و شفاف الیکشن ہوئے توجیسے ضمنی انتخابات میں ان کو شکست ہوئی تھی اسی طرح شفاف الیکشن میں بھی شکست ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سازش ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹ نہیں ہونے دیں گے، اسپیکر یا چیئرمین کو قربانی کا بکرا بنانا ہے تو بننے دیتےہیں لیکن ایک اور دو دن مزید کرسی سے چمٹ کر بیٹھتےہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی سازش ہے کہ یا سلیکشن دہرایا جائے، یا انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات ہوں، یا ہم اتنا بحران اور تماشا پیدا کریں کہ آمریت سامنے آئے ، فوجی حکومت ہو اور جمہوریت کا خاتمہ ہو۔

عمران ایک بار پھر فیض یاب ہو کر آنا چاہتا ہے، چئیرمین پی پی پی

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی موجودگی میں صاف اور شفاف انتخابات ہوتے ہوئے عمران خان کی سیاست نہیں بچتی، وہ 100 دفعہ کوششیں کریں بھٹو نہیں بن سکتا، ہزار کوششیں کریں سیاسی شہید نہیں بن سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقائق یہ ہیں کہ یہ پہلے بھی سلیکٹڈ تھے، پہلے بھی فیض یاب ہوئے اور پھر سلیکٹ اور فیض یاب ہو کر آنا چاہتے ہیں مگر ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ جو بھی ان کو یہ تجویز دےرہے ہیں وہ عمران خان کو اس کرسی میں بٹھانے کی کوشش نہیں ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو جو بھی غیرآئینی تجویز دی جارہی ہے وہ عمران خان کو پھر سے لانے کے لیے نہیں بلکہ جہوریت کو لپیٹنے کی سازش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سازش اسلامی، وفاقی جمہوری آئین کے خاتمے کی ہے، بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ سلیکٹ ہوا تو کیوں ہوا، یہ سلیکٹ ہوا تو 18 ویں ترمیم کے خاتمے، صوبےکے ڈاکے مارنے کے لیےسلیکٹ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کو سلیکٹ ہوا تو آج اتنا بڑا معاشی بحران پیدا ہوا کہ رمضان کے مہینے میں عام آدمی اپنے گھروالوں کو نہ سحری اور نہ ہی افطاری دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہر پاکستانی عذاب میں ہے، عمران خان کی سازش ہے کہ عوام کے جیب میں ڈاکا مارو اور بے وقوف بنانے کی کوشش کرو، آمریت آتی ہے تو آئے کپتان اپنی ضد پر اڑا ہے، اپنی ذات سے آگےنہیں دیکھ سکتا۔

عمران خان کو کسی پاشا کی تلاش نہیں کرنی پڑے گی، بلاول

انہوں نے کہا کہ ہم یہ جدوجہد اس لیے کر رہے ہیں کہ اس وزیراعظم کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے بہت سے راستے تھے، اگر ہم چاہتے تو ہم بھی جانتے تھے کہ گیٹ نمبر 4 کیسے کھٹکھٹانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم چاہتے تو اسی عدالت سے اس کو نااہل کرواسکتے تھے، ان کی طرح دھرنا دھرنا کھیلتے، مگر ہماری یہ کوشش تھی کہ نہ صرف اس کو ہٹانا ہے مگر صرف جمہوری آپش استعمال کریں گے اور یہ واحد جمہوری طریقہ تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آج اگر ہم آپ کے خلاف کامیاب ہوں گے، تو پھر آپ کو ہمارے خلاف احتجاج کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس کو کسی پاشا کو تلاش نہیں کرنا پڑے گا، اس کو صرف جمہوری ہتھیار اپنا کر ہمارےخلاف عدم اعتماد لانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ قومی اسمبلی پاکستان کے عوام کی ہے، مگر اس لیے تحمل سے اس کا دفاع کرتے ہیں، اس آئین کے خلاف جو بھی سازشیں ہو رہی ہیں، ہم کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضمیر فروشی کی بات کر رہے ہیں، سابق حکومتی سیٹوں پر یہ 90 فیصد شکلیں ہیں یہ پوری زندگی لوٹے ہی رہے ہیں، آج یہ ہمیں بتا رہے ہیں۔

وزیرخارجہ کو پارٹیاں بدلنے پر ان کی ضمیر کی کیا قیمت لگی تھی، بلاول بھٹو

بلاول بھٹوزرداری نے شاہ محمود قریشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب وزیرخارجہ پہلی دفعہ پارٹی تبدیل کر رہا تھا تو کتنا پیسہ ملا تھا، دوسری دفعہ کر رہا تھا تو اس کی ضمیر بیچنے کی کیا قیمت تھی اور تیسری دفعہ اپنا ضمیر بیچ رہے تھے تو کیا قیمت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی دیکھوں لوٹا ہی لوٹا، ہماری طرف آئیں اور ضمیر جاگے تو لوٹا لیکن ان کی طرف جائیں تو ضمیر جاگ جائے، یہاں آئیں تو ضمیر بک جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو لوگ اپوزیشن میں آئے ہیں اور چند حکومت میں ہیں ان کو پی ٹی آئی میں زبردستی شامل کیا گیا تھا، 2018 کے انتخابات سے پہلے بندوق کی نوک پر سیاسی مفاد کے خلاف ان سے فیصلہ کروایا گیا کہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجاؤ۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ پیسہ چلا ہے تو میں واضح کرنا چاہتا ہوں ہم وہ انتخاب چند ووٹ سے جیتے لیکن ہمارے 20 اراکین لاپتا کردیے گئے، ہمارے 20 ارکان سینیٹ کے انتخابات میں بھی جو یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا چاہ رہے تھے، وہ لاپتا ہو رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ لاپتا کروانا والا کوئی نہیں ہے، روکنا والا کوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس قومی اسمبلی کی عزت کوبچائیں، میری بات نہیں مانتےہو نہ مانیں لیکن عدالت کی بات مانو، آپ نے آئین کچلا، عدم اعتماد کی تحریک پر 7 اپریل تک ووٹنگ ہونی تھی لیکن آپ لوگوں نے آئین شکنی کرتےہوئے وہ ووٹنگ نہیں ہونے دی اور آج اگر پھر نہیں ہوتی ہے تو ایک بار پھر آئین شکنی ہوگی اور توہین عدالت ہوگی۔

عالمی سازش کے تحت 'رجیم چینج' کی کوشش کی جا رہی ہے، حماد اظہر

وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزشین پر سخت تنقید کی، نواز شریف کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر نے گارنٹی دی تھی کہ ایک مجرم علاج کے لیے بیرون ملک جائیں گے اور علاج کے بعد ان کو واپس لایا جائے گا لیکن اس مجرم کے پلیٹ لیٹس ملک کے سیاسی حالات کے مطابق ہی کم، زیادہ ہوتے ہیں۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے ملک میں رجیم چینج کی ایک بیرونی سازش چل رہی ہے اور یہ سازش دنیا میں پہلی بار نہیں ہو رہی، گزشتہ 124 سال کے دوران دنیا بھر میں ایک ملک کی جانب سے مختلف ممالک میں 81 مرتبہ رجیم چینج یا حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی گئی اور 1948 سے لے کر اب تک 61 مرتبہ اس طرح کی سازشیں کی گئیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے جن ممالک میں سازش کے تحت رجیم چینج کی کوشش کی گئی، ان ممالک میں زیادہ تر یہ سازش ناکام ہوئی اورجہاں رجیم کی کوشش کامیاب بھی ہوئی وہاں کچھ ہفتوں کے دوران ہی خانہ جنگی اور افراتفری کی صورت میں وہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارے ملک میں بھی سازش کے تحت رجیم چینج کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا ہمارے پاس ثبوت موجود ہے، ہم نے وہ ثبوت قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیے تو اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے رہنما وہاں اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جس سے شکوک و شبہات نہیں بلکہ یہ یقین پیدا ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اس سازش میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج مخالفین انتخابات سے بھاگ رہے ہیں، حکومت کے خلاف آج یہ سب اکھٹے ہوگئے ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کی بات کرتے تھے وہ آج ایک دوسرے کو لذیذ کھانے کھلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک کاغذ لہراتے ہوئے، بیرونی سازش کا الزام لگاتے ہوئے پھانسی پر چڑھ گئے، آج ان کا نواسہ ایک بیرونی سازش کا حصہ بن گیا۔

3 ماہ میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، شیریں مزاری

شیریں مزاری نے تقریر میں کہا کہ مجھے آج احساس ہوا کہ کتنی آسانی سے امریکا کا پیسہ اور دھمکی غداروں کو اکٹھے ملا لیتی ہے، پاکستان بننے کے بعد سے ان کو عادت ہوگئی ہے کہ دھمکی دو اور پاکستان کے سیاست دان جھک جائیں گے۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

اپوزیشن کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ یہ ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے کی بات کررہے تھے، آج جپھی پپی کر رہے ہیں، شرم کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کو مراسلہ دکھانے کے لیے مدعوکیا لیکن یہ نہیں مانے اور بہانے بناتے رہے کیونکہ ان کو پتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں تمام چیفس بیٹھے تھے، کیا آپ ان سب پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا رہے ہیں؟ اس مراسلے میں واضح لکھا کہ عمران خان کو ہٹاؤ اور عدم اعتماد کو جتاؤ۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی یہ روایت رہی ہے کہ جو ملک کمزور ہوگا اور اس ملک کے لیڈر کمزور ہوں گے وہ وہاں حکومت کی تبدیلی مانگیں گے اور ان کے لیڈروں کو خریدنے کی کوش کریں گے جیسے یہاں ہورہا ہے، انہوں نے ایران، عراق، لیبیا اور شام میں بھی یہی کیا، ابھی پچھلے دنوں جوبائیڈن نے ترکی اور روس کی دھمکی دی، اس ملک نے اقوام متحدہ میں بھی عراق کے معاملے پر جھوٹ بولا، آپ سب ذوالفقارعلی بھٹو کی کتاب پڑھیں اس میں یہ سب تفصیل سے لکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وار آن ٹیرر کے وقت ہماری حکومت نہیں تھی، مشرف دور کے بعد 2 سویلین حکومتوں کے دوران 400 ڈرون حملے ہوئے، کسی نے مزاحمت نہیں کی، پھر یہ امریکا سے کس مضبوط تعلق کی بات کرتے ہیں، آپ جاکر امریکا سے بھیک مانگیں لیکن یہ قوم نہیں جھکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس مراسلے میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ روس جانے کا فیصلہ وزیراعظم نے اکیلے کیا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ تاثر کس نے دیا، انہوں نے کہا بس عمران خان کو ہٹا دو پھر ہم آپ کو معاف کردیں گے، امریکا کون ہوتا ہے ہمیں معاف کرنےوالا؟

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں انتخابات میں 7 ماہ لگیں گے، آپ کی ذمہ داری ہے 3 ماہ میں انتخابات کروائیں، یہ سازش کا حصہ ہے، یہ نہیں چاہتے کہ صاف شفاف انتخابات ہوں۔

یہ خط کی آڑ میں آئین، پارلیمنٹ کو زمین بوس کرنا چاہتے ہیں، اسعد محمود

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) پاکستان کے پارلیمانی لیڈر اسعد محمود کا پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی آج تک تحریک عدم اعتماد پر مبہم بات کر رہے ہیں، اب تک آپ ووٹنگ کے معاملے پر وضاحت کے ساتھ بات نہیں کر رہے، ہم ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ کے خلاف عدالت میں گئے اور وہاں آئینی و قانونی جنگ لڑی اور وہاں سے پارلیمنٹ کا حق حاصل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج خط کو بنیاد بنا کر آپ پھر اسی طرح کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں، خط کی آڑ میں پورے ملک کی سیاست، آئین، پارلیمنٹ کو زمین بوس کرنا چاہتے ہیں۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ جب اپوزیشن لیڈر نے خط کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا کہا تو آپ نے وہ خط اسمبلی میں کیوں پیش نہیں کیا اور اس کی بنیاد پر خط پیش کیے بغیر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا، لیکن اب آپ کے پاس وہ مینڈیٹ نہیں رہا کہ آپ خط کی بنیاد پر عوام کا اور پارلیمنٹ کا وقت ضائع کریں، آپ اپنی پارٹی اور اپنے اتحادیوں کا مینڈیٹ اور اعتماد کھوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر تسلیم کریں کہ ان کا وزیراعظم اب پاکستان کا وزیراعظم نہیں رہا، اسپیکر اس بات کی وضاحت کریں کہ وہ آئئین پاکستان کی بات مانیں گے یا بنی گالا میں بیٹھے شخص کی بات پر عمل کریں گے، ہم آپ سے آئین کے مطابق اختیار استعمال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے ہماری قیادت، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی قیادت کو ذاتی حملوں اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو قابل افسوس ہے، یہ تنقید کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کل ان لوگوں کے ساتھ تھے جن کو آج تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، کیونکہ یہ لوگ کسی کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے مفادات کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ رہنما کہتے ہیں کہ ہم آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ قوم کو گمراہ کرتے ہیں کہ عمران خان غیر ملکی طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے، میں کہتا ہوں کہ عمران خان ہمارے خلاف ڈٹ کر کھڑا نہیں ہوسکتا وہ امریکا، ہندوستان کے خلاف کیا کھڑا ہوگا۔

اسپیکر ووٹنگ پر وقت ضائع نہ کرے، آصف علی زرداری

سابق صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کبھی ذاتیات پر بات نہیں کرنا چاہتا، لوگ اکثر جذبات میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں، کسی کے لیڈر کہتے ہیں کہ میں ان کی بندوق کے نشانے پر ہوں۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ آج تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا دن ہے، اسپیکر وقت ضائع نہیں کریں، ووٹنگ کرائیں تاکہ ایک آئینی عمل مکمل ہو، ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر ووٹنگ کرائیں، ہم نہیں چاہتے کہ ہم اسپیکر کے خلاف عدالت میں توہین عدالت کی درخواست لے کر جائیں۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بہت کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور سیاست کی یونیورسٹی تو صرف پیپلزپارٹی کے پاس ہے، پی ٹی آٗئی میں شامل کئی رہنما اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ہوسکتا ہے کل کو وہ لیڈر واپس پیپلزپارٹی میں آجائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سوائے ایک شخص کے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کی بہتری کے لیے بات چیت کی جاسکتی ہے۔

15 ارب میں حکومتیں تبدیل ہوسکتی ہیں تو اس کا اختتام کوئی اچھا نہیں ہونے والا، اسد عمر

اسد عمر نے کہا کہ آج پارلیمانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، سب سے پہلے بلاول کی باتوں کو جواب دے دوں، امریکا میں جب 7 مارچ ہوتا ہے تو پاکستان میں 8 مارچ ہوتا ہے، وہاں یہ بات ہوچکی تھی پاکستان میں بعد میں پہنچی۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے 5 سال میں 57 لاکھ روزگارپیدا کیا، تحریک انصاف نے 3 سال میں 55 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کیے، کورونا کے باوجود یہ کارکردگی تھی، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے 10 سالوں میں درآمدات میں جتنا اضافہ کیا اتنا تحریک انصاف نے گزشتہ ایک سال میں کرلیا، معیشت کی نمو 2 سال برسوں سے 5 فیصد سے اوپر ہے، ایسا 15 سال میں پہلی بار ہوا۔

اسد عمر نے کہا سوال یہ بنتا ہے کہ آپ برسوں سے کوشش کررہے تھے حکومت گرانے کی لیکن 7 مارچ کو مراسلہ بھیجا گیا اور 8 مارچ سے آپ کی کامیابی کا آغاز ہوگیا، یہ کیسے ممکن ہوا؟ یہی تو ہم پوچھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو بھان متی کا کنبہ حکومت بنائے گا، یہ ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دیتے رہے، یہ حکومت چلے گی کیسے سمجھ نہیں آتی، زرداری صاحب کو مبارک باد کہ ان کا پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرنے والے اب ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں، اس میں عمران خان کا کریڈٹ بھی بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں لوٹوں کو بولیاں لگا کر خریدا جائے، ضمیر خریدے جائیں، سینیٹ الیکشن میں بھی یہی ہوا، ووٹ کی تحقیر کا دروازہ بند کرنے کے لیے بھی تو آئیں۔

اسد عمر نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ اغیار بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ فلاں قبول ہے فلاں نہیں، کیا کوئی خوددار پاکستانی یہ بات مان سکتا ہے کہ وزیراعظم کے لیے کہا جائے کہ یہ کرسی پر بیٹھے گا تو تنہا کردیا جائے گا، ہم نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے، ایک خوددار اور آزاد پاکستان ہو جس کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دیں، کیا یہ قربانیاں اس لیے دی تھیں کہ کوئی اور ملک ہمیں بتائے گا کہ یہاں جاؤ یہاں نہیں جاؤ۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے تھے اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا ان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں، بلاول نے درست کہا کہ حل ووٹ سے ہی نکلے ہوگا لیکن وہ ووٹ صرف عوام کا ہوگا۔

اسد عمر نے کہا کہ پتا نہیں ہم یہاں ہوں گے یا نہیں ہوں گے لیکن میں یہ واضح کردوں کہ اگر 15 ارب میں حکومتیں تبدیل ہوسکتی ہیں تو اس کا اختتام کوئی اچھا نہیں ہونے والا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن پارلیمان کی سپرمیسی کی بھی حفاظت کرنا ہوگی، اگر عدلیہ نے ہی اجلاس کے وقت کا فیصلہ کرنا ہے تو پارلیمان کو لپیٹ دیں، کیا عدالت میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟ آئین کے اندر جو پارلیمان کا کام ہے اس میں عدالت مداخلت نہیں ہوسکتی، پارلیمان کا اختیار ہم کسی اور کو دینے کو تیار نہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ مراسلے کے معاملے میں ہم نے کوشش کی تھی کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے، مراسلے پر بریفنگ کے لیے انہیں دعوت دی گئی تھی لیکن یہ نہیں آئے، ابھی بھی وقت ہے اِن کیمرا بریفنگ بلائیں اور تفصیل سے بریفنگ لیں، اگر نہیں مانتے تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آخر میں قوم اور ممبران کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد ہے، عمران خان نے 25 سال محنت کی ہے اور کرتا رہے گا اور ان کے شیر اِن کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

طویل تقاریر کا کوئی جواز نہیں، ووٹنگ کروائیں، خواجہ سعد رفیق

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا آرٹیکل 9 ہے جو واضح کہتا ہے کہ اس پر اسپیکر نے عمل کروانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو یہ بات پوری ہونی چاہیے، کل کی پوری رات اور صبح 3 بجے تک ہماری ٹیم نے اسپیکر ہاؤس میں وفاقی وزرا اور اسپیکر سے اس لیے مذاکرات کیے کہ آپ ووٹنگ کروائیں اور توہین عدالت کے مرتکب نہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ آج ووٹنگ کروائیں گے لیکن پوائنٹ آف آرڈر پر لمبی لمبی تقاریر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اسپیکر اور اسد عمر سمیت وفاقی وزرا نے عمران خان سے پوچھ کر وعدہ کیا تھا کہ آج افطار کے بعد ووٹنگ ہوگی اور آپ نے ہمیں کہہ دیا کہ ہم اپنی بات کا پاس نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر صاحب چیمبر میں موجود ہیں، ابھی ان سے ملاقات ہوئی ہے، انہیں کہیں اپنی کرسی پر تشریف لائیں، ہماری استدعا ہے ووٹنگ کروائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اکثریت کھو چکے ہیں، سپریم کورٹ کی توہین نہ کریں، اس ملک کو ریاست رہنے دیں، اس میں جنگل کا قانون نہ بنائیں، یہ ایک جوہری ریاست ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کو بار بار پامال نہ کریں اور ووٹنگ کروائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خط اور سازش کا ہم سامنا کریں گے، ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں اور ہم کسی سازش کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو آئین کے خلاف سازش نہیں کرنے دیں گے۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر واپس آئے اور اجلاس کی صدارت کی۔

آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، شاہ محمود

ایوان میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں اپنی جماعت کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آئین میں عدم اعتماد کی تحریک کا حق موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں آج ایک اور چیز ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آئین شکنی مطمع نظر تھا نہ ہوگا، آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ وہ دل سے مایوس ہیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خرم کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ایوان میں گفتگو — تصویر: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ایوان میں گفتگو — تصویر: ڈان نیوز

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری ہوئی ہے، میں حالیہ آئین شکنی کا حوالہ دینا چاہوں گا، قوم اس بات کی گواہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو آئین شکنی ہوئی، قوم اس بات کی گواہ ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جب وہ کیس گیا تو نہ صرف وضاحت مانگی گئی بلکہ آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری صاحب نے عدلیہ کے فیصلے سے قبل بیان دیا کہ کوئی نظریہ ضرورت کا فیصلہ ہم قبول نہیں کریں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں، میرا وزیر اعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں لیکن عدلیہ کا احترام کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اجلاس جاری رہے گا اور تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو ہونے والے اجلاس اور وزیر اعظم عمران خان کے اسمبلی توڑنے کی تجویز کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا اور اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ ہماری اپوزیشن پونے 4 سال سے کر رہی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ عوام کے پاس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عوام پاکستان مستقبل کن ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے لیکن اپوزیشن عدلیہ میں کیوں گئی، اس کا ایک پس منظر ہے، یہاں جب ڈپٹی اسپیکر اجلاس کر رہے تھے اس میں آئینی کارروائی سے انکار نہیں کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ایک نئی صورت حال میرے سامنے آئی ہے جہاں ایک بیرونی سازش ہورہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونا ضروری ہے، قومی سلامتی کمیٹی کا فورم ایک اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں مراسلے کی بازگشت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی نے اس مراسلے کو دیکھا تو اس حل پر پہنچی کہ یہ سنگین اور حساس مسئلہ ہے اور احکامات جاری کیے۔

انہوں نے کہا کہ پہلا یہ کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کرو اور دفتر خارجہ یہی کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے دوسرا فیصلہ یہ دیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ بات کی باریکی تک جائیں۔

شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن بینچز سے آوازیں آنے لگیں اور شور شرابہ ہوا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

آج ہم یہاں ہیں کل نہیں ہوں گے، شاہ محمود

اجلاس میں 2 گھنٹے کے وقفے کے بعد انہوں نے اپنی تقریر دوبارہ شروع کی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں ووٹنگ سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ نئی صورت حال ہےجسے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا ماحول پیدا کیا وفاداریاں بدلنے کی کوشش کی گئی، ضمیر فروشی کا بازار لگا، ٹکٹوں کے وعدے، سنہری خواب دکھائے گئے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کیا یہ کوشش آئینی تھی؟

انہوں نے کہا کہ وہ قوتیں جنہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم اٹھائی ہے وہ نہیں دیکھ رہیں کہ بازار لگا ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل بھی پی ٹی آئی اس بات کا تقاضا کرچکی ہے ہمیں اس روش کے خلاف رکاوٹ ڈالنی ہوگی، اس سے قبل سینیٹ میں جو ہوا لیکن اس کے خلاف درخواست آج بھی زیر التوا پڑی ہے، اگر ہم نے اس چیز کے آگے بند باندھا ہوتا تو آج اس چیز سے دوچار نہیں ہوتے۔

بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ہم یہاں ہیں، کل نہیں ہوں گے ہم سے بڑی بڑی ہستیاں یہاں سے گزری ہیں، انسان فانی ہے، ایک لمحے کا مجھے پتا نہیں کہ اگلا سانس ہوگا یا نہیں، بڑے بڑے نامور لیڈر اس قوم نے پیدا کیے جو آج منوں مٹی تلے سورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیکن تاریخ گواہ ہوگی، حقائق کبھی چھپتے نہیں ہیں دبائے جاسکتے ہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ تاریخ انہیں بے نقاب کرے گی، جنہوں نے یہ سارا ناٹک رچایا انہیں بے نقاب کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مؤرخ کا قلم بڑا ظالم ہے کسی کو نہیں بخشتا، جس طرح اس نے چیزیں قلمبند کی ہیں وہ سامنے آجائیں گی۔

روس کے دورے کا فیصلہ مشاورت سے کیا گیا، شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں اس بات کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ جب ماسکو کے دورے کا فیصلہ کیا گیا اس کا یوکرین کی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں تھا، 2 ماہ سے یہ سلسلہ جاری تھا بالکل آخر دعوت آئی اور وزیراعظم نے جانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دورے سے قبل مشاورت کی گئی، جائزہ لیا گیا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا، اس کے پس پردہ پاکستان کی بہتری تھی، اس وقت یوکرین کی صورت حال سامنے نہیں آئی تھی اور فوجی چڑھائی نہیں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ہم نے مشاورت کے لیے سابقہ سیکریٹریز خارجہ، سفارت کاروں، دانشوروں اور میڈیا کو بلایا اور بات کی کہ جائیں تو کیا فائدہ کیا نقصان ہوگا پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ اس باہمی دورے کو جاری رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان چھوٹا صحیح ایک خودمختار ملک ہے، آپ شاید اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ کر کے غلامی کا طوق قبول کرنا چاہتے ہوں، ہم نہیں چاہتے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیوین نے پاکستانی مشیر قومی سلامتی کو کال کر واضح طور پر کہا کہ دورے پر نہیں جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ کہاں ہوتا ہے کہ ایک خود مختار ملک کو اس کے باہمی دورے سے روکا جائے، کون سی خودمختار اور خوددار قوم یہ قبول کرتی ہے۔

شاہ محود قرییشی نے کہا کہ ساڑھے 3 سال یہ لوگ کہتے رہے کہ انتخابات کراؤ، اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ چلو عوام کے سامنے دیکھتے ہیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، اپنا اپنا مؤقف پیش کریں گے، اسی کی جمہوریت کہتے ہیں، نوٹ، ووٹ اور کھوٹ کے درمیان فیصلہ عوام کرلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک کو آئینی بحران کی جانب نہ دھکیلیں، اس کا واحد حل تازہ انتخابات ہیں، آپ عوام کے سامنے جانے سے گھبرا کیوں رہے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو سیاسی بصیرت پرخراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے 27 مارچ کے جلسے میں بھرپور شرکت کی، غداری کون کررہا ہے عوام سے یہ فیصلہ عوام ہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں آخر میں قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ آج آزمائش کا وقت ہے، ایک طبقہ پاکستان کے مفاد کو سودا کرنا چاہتا ہے، تمام سیاسی قوتیں ایک طرف ہیں اور تنہا عمران خان ایک طرف ہے، یہ بغض کا اتحاد ہے جن میں کچھ بھی یکساں نہیں ہیں، یہ تو ایک دوسرے کے پیٹ چاک کرنے کی بات کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب قوم کو دیکھنا ہے کہ ہم نے کس سمت جانا ہے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے، میرے سینے میں بہت راز ہیں ابھی نہ کھولیں، پاکستان کا ووٹر ایک اییک کو پہچان رہا ہے، ان شا اللہ میری جماعت اور میرا قائد پاکستان کے آئین، نظریے، جغرافیے اور مفادات کا تحفظ کریں گے، اقتدار آتا ہو تو آئے جاتا ہو تو جائے، پاکستان کے مفاد کا سودا نہیں کریں گے۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ووٹنگ کرائی جائے، شہباز شریف

مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا افطار اور نماز مغرب کے وقفے کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی ذمے داری ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا اجلاس عدالتی حکم پر ہو رہا ہے، ہم صبح سے یہاں بیٹھے ہیں اور آپ مختلف حیلوں، بہانوں سے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں یہاں ان کو تقریریں، ان کی بے تکی باتیں سننی پڑھ رہی ہے جنہوں نے پاکستان کی معشیت کو تباہ کردیا، ہم نے وزیر خارجہ کی لچھے دار تقریر سنی، نہ جانے کہاں کہاں توہین عدالت کی وہ باتیں کر رہے تھے، کہاں کہاں وہ کاسہ لیسی کی باتیں کر رہے تھے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دیں، ہم ان کو ان کی اوقات یاد دلادیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے کہا تھا کہ ہماری ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کا 50 فیصد یورپ جاتا ہے، اس لیے اگر ہم ان سے تعقات منقطع کرتے ہیں تو نقصان پاکستان کا ہوگا، لیکن آج جب ان کی ذات پر بات آگئی ہے تو انہوں نے یورپی یونین پر سخت تنقید کی اور پاکستان کے مفاد کی پروا نہیں کی۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ملک میں غربت و مہنگائی کو انتہاؤں پر پہنچا دیا، معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، چینی، گندم اور ایل این جی میں کھربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈلز ہیں، یہ وہ معاملات اور اسکینڈلز ہیں جنہوں نے ان کی راتوں کی نیدیں اڑادی ہیں۔

اس سے قبل ایوان کی باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تقریر کی۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن تھا جب عدالت عظمیٰ نے آپ کے، وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے پاکستان کا مستقبل تابناک بنا دیا۔

شہباز شریف کا ایوان میں اظہار خیال — تصویر: ڈان نیوز
شہباز شریف کا ایوان میں اظہار خیال — تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ میں اس کے لیے متحدہ اپوزیشن کی پوری قیادت اور قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آج آپ سپریم کورٹ کے حکم کے تابع ایوان کی کارروائی چلائیں کیوں کہ آج یہ ایوان ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہا ہے اور آئینی اور قانونی طریقے سے ایک سیلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو ماضی میں ہوگیا ہوگیا، آج آپ آئین و قانون اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے لیے کھڑے ہوجائیں اور صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کر کے تاریخ میں سنہرے حروف میں نام لکھوا لیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں سیلیکٹڈ وزیراعظم کی ڈکٹیشن پر نہ چلیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا واضح ہے۔

اس دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کا پورا فیصلہ پڑھا ہے اور میں من و عن اس کے مطابق اجلاس کی کارروائی کروں گا اور ہم چاہتے ہیں کہ اس میں بین الاقوامی سازش کے بارے میں بھی بات ہو۔

اس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اگر آپ پھر اس طرف آئیں گے تو آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھا اور یاد دہانی کرائی کہ آپ اس کے مطابق ایجنڈا آئٹم پر کارروائی کرنے کے پابند ہیں کسی اور پر کارروائی نہیں کرسکتے، اس لیے مہربانی کر کے ووٹنگ کرائی جائے۔

متحدہ اپوزیشن کا پارلیمانی اجلاس

اجلاس سے قبل ٹیلی ویژن فوٹیج میں دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات دکھائی دیے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس کی صدارت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کی۔

اپوزیشن کو عدم اعتماد کے اقدام کے ذریعے وزیر اعظم کو بے دخل کرنے کے لیے 342 میں سے کم از کم 172 قانون سازوں کی حمایت درکار ہے۔

اس تاثر کے باوجود کہ اس نے ایوان زیریں میں اپنی اکثریت کھو دی ہے، حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اب بھی اس بات پر بضد تھی کہ وہ اپوزیشن کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑے گی اور اس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کے لیے معاملات کو اتنا ہی مشکل بنا دے گی، چاہے وہ ووٹنگ کے طریقہ کار میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہو یا اپوزیشن کے نامزد کردہ شہباز شریف کو نئے قائد ایوان کے طور پر منتخب کرنے سے روکنا ہو۔

یاد رہے کہ 3 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ کرائے آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

بعدازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر اسمبلی توڑ دی تھی۔

جس پر لیے گئے از خود نوٹس کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 5-0 کی اکثریت سے قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی۔

اپوزیشن کا وزیراعظم پر عدم اعتماد

اپوزیشن نے گزشتہ ماہ 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی اور ساتھ ہی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن بھی دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش

آئین کے تحت اسپیکر اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرانے کے 14 روز کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے اور تحریک عدم اعتماد پارلیمان میں پیش کیے جانے کے بعد کم از کم 3 بعد اور 7 روز سے پہلے اس پر ووٹنگ ہونی ہوتی ہے چناچہ 22 مارچ تک اجلاس طلب کیا جانا تھا۔

اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد داخل کی، فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد داخل کی، فوٹو: ڈان نیوز

تاہم اس دوران اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے انعقاد کے باعث ایوانِ زیریں کے ہال میں تزیئن و آرائش کا کام جاری تھا۔

چنانچہ اسپیکر نے 21 مارچ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے 25 مارچ کو اجلاس طلب کیا جسے وفات پاجانے والے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اور دیگر کے لیے فاتحہ خوانی کے فوری بعد ملتوی کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 161 اراکین کی حمایت سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔

منحرف اراکین اور سندھ ہاؤس

قبل ازیں تحریک پیش کیے جانے سے قبل ہی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ اراکین کے اپوزیشن کیمپ میں جانے کا بھی معاملہ بھی سامنے آیا اور محرف اراکین سندھ ہاؤس میں پائے گئے تھے جن کی تعداد سے متعلق مختلف دعوے سامنے آئے۔

پی ٹی آئی کے اراکین نے یہ خبر سننے کے بعد سندھ ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بول دیا تھا اور مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے۔

تحریک انصاف کے کارکنان سندھ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے، فوٹو: ڈان نیوز
تحریک انصاف کے کارکنان سندھ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے، فوٹو: ڈان نیوز

منحرف اراکین کے سامنے آنے کے بعد سے صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی اور حکومتی کیمپ میں ہلچل مچ گئی، انحراف کرنے والے اراکین کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے سخت انتباہات بھی کیے گئے اور باضابطہ طور پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد سے پی ٹی آئی پر عوام کا اعتماد بڑھا، وزیراعظم

تاہم حکومت کی ڈھارس اس وقت بندھی جب اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا جس کے بدلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ اور انہیں ناراض اراکین کی حمایت کا ٹاسک دیا گیا کیا گیا۔

اس پیش رفت کے سامنے آنے کے بعد 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تاہم وزیراعلیٰ نے اسی روز اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردیا جسے 5 روز بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے منظور کرلیا۔

اتحادیوں کی راہیں جدا

منحرف اراکین کے سامنے آنے پر پارٹی پالیسی سے انحراف کی صورت میں تاحیات نااہلی کی کوشش کر کے دباؤ ڈالا گیا اور اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 63 اے کے تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

تاہم دوسرا بڑا جھٹکا حکومت کو اس وقت لگا جب اپوزیشن اتحاد مرکز اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کے 5 میں سے 4 اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔

ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی
ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی

اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اپنی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو منانے کی کوششوں میں شدت آگئی اور حکمراں جماعت کے وفود نے اتحادیوں سے کئی ملاقات کی۔

تاہم یہاں بھی حکومت کی کوششیں رائیگاں گئیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اپوزیشن کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی جس کے بعد پی ٹی آئی واضح طور پر ایوان میں اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔

وزیر اعظم کا 'سرپرائز'

تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب 'امر بالمعروف' کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔

خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد اور لوٹ سیل میلہ

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

مذکورہ صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔

جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔

بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔

البتہ قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔

جس پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوے محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔

تحریک عدم اعتماد مسترد

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔

فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔

اسمبلی تحلیل

ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔

بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔

ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

سپریم کورٹ از خود نوٹس

قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

جنید طاہر Apr 10, 2022 01:59am
We may have lost this battle…. But we will win the WAR , InshaAllah