اٹارنی جنرل کی وزیراعظم سے ملاقات، مزید چند روز کام جاری رکھنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2022
جلد مستعفی ہونے کا ارادہ رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان مزید ایک یا دو دن اس عہدے پر رہ سکتے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جلد مستعفی ہونے کا ارادہ رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان مزید ایک یا دو دن اس عہدے پر رہ سکتے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت انحراف کی شق کی تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے پر جلد ہی مستعفی ہونے کا ارادہ رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان مزید ایک یا دو روز اس عہدے پر رہ سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے جمعہ کو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں عمران خان نے ان سے کہا کہ وہ کچھ وقت رکیں ​​اور کچھ دیر اپنے دفتر میں رہیں۔

مزید پڑھیں: آئین کی دھجیاں اڑا دی گئیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود مستعفی

اٹارنی جنرل نے 4 اپریل کو جسٹس مقبول باقر کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ زندگی ہمیشہ ہمارے منصوبوں کو روکتی ہے اور اپنے وقت کا انتخاب کرتی ہے۔

یہ تقریر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بغیر اجلاس ملتوی کرنے کے ایک دن بعد کی گئی۔

اس پیشرفت نے ان افواہوں کو جنم دیا تھا کہ اٹارنی جنرل پاکستان جلد استعفیٰ دے سکتے ہیں۔

تاہم خود اٹارنی جنرل نے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے خطاب میں یہ کہہ کر معاملے کو حل کر دیا کہ انہوں نے صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے فوراً بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اٹارنی جنرل کا خط زیر سماعت معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، شہباز شریف

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ سیاسی بساط پر حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے ان کی جانب سے فوری استعفیٰ کو ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کے چھلانگ لگانے سے تشبیہ دی جائے گی اور میں اس داغ کے ساتھ جی نہیں سکوں گا۔

اٹارنی جنرل نے اپنی تقریر میں مشاہدہ کیا کہ چاہے کوئی جہاز کے راستے اور سفر سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے، کسی کو بھی جہاز سے چھلانگ لگا کر اسے طوفان کی بپھری ہوئی موجوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے، خاص طور پر جب آپ نے اس جہاز کے سفر کا لطف اٹھایا ہو۔

خالد جاوید نے اپنی تقریر کے اختتامی حصے میں ٹائٹینک کے حوالے سے استعارے کے طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لہٰذا میں ٹائی ٹینک پر ہی رہوں گا اور آپ کی بادشاہت (جسٹس باقر) کو اس کے عرشے سے ہی الوداع کہوں گا‘۔

اٹارنی جنرل نے اس سال کے شروع میں نامہ نگاروں کے ایک گروپ کو بتایا تھا کہ انہوں نے فروری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے اس ہفتے اسمبلی کی تحلیل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بینچ کو بتایا تھا کہ حکومت کے لا افسر کی حیثیت سے ’یہ میرا آخری مقدمہ ہوگا‘ اور یہ کہ ’میں نہیں چاہوں گا کہ تاریخ مجھ پر فرد جرم عائد کرے‘۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس: تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ پرامن انداز میں ہوگی، اٹارنی جنرل

انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے حکم اور اسمبلی تحلیل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کو مشورہ دیا تھا کہ عدالت کو جوڈیشل ایکٹیوزم میں ملوث ہونے کے بجائے عدالتی اسٹیٹ مین شپ کا استعمال کرنا چاہیے اور حکومت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔

7 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشاہدہ کیا تھا کہ عدالت نہ صرف اس کیس میں بلکہ زیر التوا صدارتی ریفرنس میں بھی اٹارنی جنرل کی مدد چاہتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں