’ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اب یہاں اسلام کے مطابق کچھ نہیں ہو رہا‘

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2022
سرکاری ملازم محمد صدیق نے پلاٹ واپس کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سرکاری ملازم محمد صدیق نے پلاٹ واپس کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹمنٹ کے معاملے پر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیٰسی کی سربراہی میں دو رکنی بینج نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں پلاٹ الاٹمنٹ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سرکاری ملازم محمد صدیق کی درخواست کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے سے متعلق ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اب یہاں اسلام کے مطابق کچھ نہیں ہو رہا، ہم راتوں رات انقلاب لاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں وزیر اعظم اپنی صوابدید پر دو، دو پلاٹ الاٹ کر دیتا ہے، وزیر اعظم کون ہوتا ہے ایسے پلاٹ دینے والا، ہمارے ملک میں پلاٹ دینے کا کوئی اصول نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ججز، سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

ان کا کہنا تھا کہ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ سیکریٹری کو دو پلاٹ دے دیے گئے، ہمارے ملک میں صرف بڑے لوگوں کو پلاٹ ملتے ہیں غریب کو کوئی پلاٹ نہیں دیتا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں جنرلز کو پلاٹ دے دیے جاتے ہیں، کیا وہ تنخواہ نہیں لیتے، کچی آبادی میں جاکر دیکھیں لوگوں نے اوپر نیچے چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بڑے افسران کو دو دو پلاٹ نہیں دیتے، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پہلے دو دو پلاٹ دے دیے جاتے تھے، 2006 کے بعد کسی کو دو پلاٹ نہیں دیے گئے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میں نے پلاٹ پر گھر تعمیر کر لیا اب مجھ سے پلاٹ واپس لیا جارہا ہے، جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کا پہلے ہی ایک پلاٹ تھا اس لیے آپ سے یہ پلاٹ واپس لیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: ججوں اور سرکاری ملازمین کو پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم غیر آئینی قرار

سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم محمد صدیق کی پلاٹ واپس کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

خیال رہے 23 فروری کو وفاقی دارالحکومت کے خصوصی سیکٹرز میں وفاقی ملازمین اور ججز کے لیے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سرکاری الاٹیز نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے سرکاری افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی تھی، آئین کے تحت ہائی کورٹ کو ازخود لینے کا اختیار ہے نہ ہی یہ عدالت پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ زمینوں کے حصول کے نقطے پر پہلے ہی اصول وضع کر چکی ہے، فیصلہ دیتے وقت ہائی کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے وضع کردہ اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا۔

مزید پڑھیں: ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

درخواست گزار الاٹیز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الاٹمنٹ بحال کرنے کی استدعا کی اور کہا تھا کہ کیس سیکٹر ایف 14 اور 15 کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا نہیں تھا۔

یاد رہے کہ 3 فروری 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف جی ای ایچ اے کی پلاٹ اسکیم کو غیر آئینی اور عوامی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اثاثے صرف عوام کے مفاد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

حفیظ اللہ خان Apr 14, 2022 06:43pm
جی ہاں محترم ومکرم جج صاحب یہی رونا تو ہم بھی رورہے ہیں کہ وطن عزیز میں اسامی قوانین پر عمل کیاجائے ! خدارا یہ کام صرف عدلیہ ہی کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قانون میں اسلامی حدود اور شرعی قانون نافذ کریں تاکہ قرارداد مقاصد کا مقصد بھی پورا ہو اور پاکستان کا مقصد بھی۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ