راجا پرویز اشرف بلا مقابلہ اسپیکر قومی اسمبلی منتخب

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2022
—فوٹو: نیشنل اسمبلی ٹوئٹر
—فوٹو: نیشنل اسمبلی ٹوئٹر
راجا پرویز اشرف 22ویں اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے—تصویر: این اے ٹوئٹر
راجا پرویز اشرف 22ویں اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے—تصویر: این اے ٹوئٹر

سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف بلامقابلہ اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے، جنہوں نے بطور اسپیکر پہلا حکم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اسمبلی کے استعفے اپنے سامنے پیش کرنے کا دیا۔

اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے مستعفی ہوجانے کی وجہ سے اجلاس کی صدارت پینل آف چیئرپرسن میں شامل مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کی۔

اجلاس کے آغاز میں قائد ایوان شہباز شریف نے اسمبلی میں اظہار خیال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: قاسم سوری نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

ایاز صادق نے اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے کا آئٹم نمبر 5 پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے صرف راجا پرویز اشرف واحد امیدوار تھے جن کے تجویز کنندگان خورشید شاہ اور نوید قمر تھے اور یوں وہ بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔

راجا پرویز اشرف قومی اسمبلی کے 22ویں اسپیکر بنے ہیں اور ایاز صادق نے ان سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔

اسپیکر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی باوقار منصب پر فائز ہونے پر اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔

ایاز صادق نے راجا پرویز اشرف نے عہدے کا حلف لیا—تصویر: قومی اسمبلی ٹوئٹر
ایاز صادق نے راجا پرویز اشرف نے عہدے کا حلف لیا—تصویر: قومی اسمبلی ٹوئٹر

انہوں نے کہا کہ اس منصب پر بلامقابلہ منتخب کرنے پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری، چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، قائد ایوان میاں محمد شہباز شریف اور دیگر تمام پارلیمانی زعما اور اراکین پارلیمان کا تہہ دل کا شکرگزار ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وطن عزیز پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے سال میں بطور اسپیکر میرا انتخاب میرے لیے باعث مسرت ہے۔

اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ اس معزز ایوان کی تعظیم و توقیر میں اضافہ میرا مطمع نظر اور اولین ترجیح ہے، اسپیکر کا منصب تمام تر غیر جانبداری اور بردباری کا متقاضی ہے اور کسٹوڈین آف ہاؤس ممبران کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اس کی ا ولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس منصب کے لیے اس معزز ایوان نے میرا بلا مقابلہ انتخاب کیا اس منصب پر سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کو بلا مقابلہ اپنا پہلا سربراہ منتخب کیا گیا تھا اور یہ ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بطور کسٹوڈین آف ہاؤس منتخب کر چکا ہے۔

مزید پڑھیں:ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب، عمران خان 'آؤٹ'

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ قائدِ اعظم کا خطاب جہاں پاکستان کا پہلا سرکاری اور قومی آئینی بیانیہ ہے وہیں ریاستی ڈھانچے میں مقننہ کے مرکزی کردار پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے، انہوں نے فرامایا تھا کہ یاد رکھیے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو ہی تمام اختیارات حاصل ہیں۔

سابق حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے، شہباز شریف

قبل ازیں ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے بتایا کہ توانائی حکام کے ساتھ متعدد اجلاس کیے گئے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ملک میں اس وقت 35 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس میں 6 ہزار میگا واٹ ہائیڈل پاور سے حاصل ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس نہیں چلائے جاسکے اور کئی پلانٹس گیس اور تیل کی وجہ سے بند پڑے ہیں جس میں سابق حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ملک میں اس وقت لوڈ شیڈنگ ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ کراچی پورٹ پر ٹرمینلز ناکافی ہیں، سابقہ حکومت اتنی نااہل تھی کہ اسے کوئی پروا نہیں تھی، آج صبح راول چوک فلائی اوور کا دورہ کیا جسے 24 ماہ میں مکمل ہونا تھا، ہم نے 72 روز میں ایسے فلائی اوورز بنا کر عوام کو دیے۔

خیال رہے کہ اجلاس کے ایجنڈے میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بھی شامل تھی جو ان کے مستعفی ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکی۔

ادارے آئینی کردار کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ہماری فتح ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب اسپیکر کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں اس کی توہین ہوئی ہے، جس پارلیمان کا ہم حصہ ہیں گزشتہ چند ماہ میں اس ایوان کے ساتھ مذاق کیا گیا، پوری دنیا میں پاکستان کے تشخص اور جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھیلا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں متحدہ اپوزیشن کہنے والا تھا لیکن اب تو ہم متحدہ حکومت ہیں، ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی ہم نے ایک سلیکٹڈ وزیراعظم جسے اس ایوان پر مسلط کیا گیا تھا اسے گرا دیا۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن اور پورے ملک کی فتح ہے کہ پاکستان کے عوام کو ایک امید کی کرن نظر آرہی ہے کہ پاکستان کے وہ تمام ادارے جو متنازع رہے ہیں وہ شاید اب ایک متنازع کردار سے منتقل ہوتے ہوئے آئینی کردار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئین کے منافی، قرار داد مسترد

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر یہ منتقلی مکمل ہوتی ہے، اگر اس ملک کے سارے کے سارے ادارے متنازع بننے کے بجائے آئینی بنیں تو اس دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کی ترقی کو روک سکے، اگر یہ سفر ہم مکمل کرتے ہیں تو پاکستانیوں کو ان کے حقوق ملیں گے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب اس وقت تمام جماعتیں اور ملک آپ کی طرف دیکھ رہا ہے، اگر ہم اس جدوجہد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو تاریخ ہم سب کو یاد کرے گی۔

بعدازاں انہوں نے معروف سماجی رہنما بلقیس ایدھی کی وفات پر تمام جماعتوں کی جانب سے تعزیتی قرارداد پیش کی اور ان کے لیے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈ کی سفارش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اس کے علاوہ ایک اور قراداد میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پر تشدد کی مذمت کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

قرارداد مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شزہ فاطمہ خواجہ نے پیش کی، جس کے مطابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی پر زبانی اور جسمانی حملہ کیا گیا، قومی اسمبلی اس بربریت کی مذمت کرتی ہے۔

مفتی اسعد محمود کا پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں پر اعتراض

ایوان میں بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی مفتی اسعد محمود نے کہا کہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اسپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، کروڑوں لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پورے دنیا جانتی ہے کہ پی ٹی آئی استعفے دے چکی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص پوری پارٹی کے استعفے قبول کرلے۔

ان کا کہنا تھا کہ انشا اللہ ہم پنجاب اسمبلی میں بھی جیتیں گے، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ہمارے مدارس اور مساجد پر حملے کیے گئے، بدمعاشی اور دہشت گردی کریں گے تو ہم بزور بازو اس کو روکیں گے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم ہاؤس کی جو بھینسیں بیچی گئیں اس کا ریکارڈ اور توشہ خانہ کے تحفوں کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں۔

پی ٹی آئی اراکین استعفے نہیں دینا چاہتے تھے دباؤ ڈالا گیا، ایاز صادق

اسعد محمود کی تائید کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین نے 2014 میں اجتماعی استعفے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائے تھے، جس میں ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مدد لی اور اپنا ذہن چلایا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک رات 33 اراکین میں سے 9 نے مجھے فون کر کے کہا کہ اگر آپ استعفیٰ منظور کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایوان میں آنا چاہتے ہیں، جس پر میں نے ان سے کہا کہ میں ان ان وجوہات کی بنا پر استعفے منظور نہیں کررہا۔

ایاز صادق نے کہا کہ پھر ہم نے ایک ایک کر کے ان اراکین کو بلایا تا کہ ان کے دستخط کی تصدیق ہو اور معلوم ہو کہ یہ فیصلہ انہوں نے کسی دباؤ کے بغیر کیا لیکن کوئی نہیں آیا، ان میں سے صرف ایک شخص نے اپنے استعفے کی تصدیق کی۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم تنخواہیں واپس کریں گے لیکن کسی نے پوری تنخواہ واپس نہیں کی بلکہ نصف تنخواہیں واپس کیں جبکہ 2 اراکین نے وہ بھی نہیں دی جس میں ایک عمران خان نیازی تھے۔

یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے

ایاز صادق نے کہا کہ ابھی جن اراکین کے استعفے آئیں ہیں وہ سائیکلو اسٹائل کاغذ پر آئے ہیں جبکہ قواعد کے مطابق وہ ہاتھ سے لکھے ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ ان کی فرداً فرداً تصدیق بھی نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر صاحب اب جو استعفیٰ آئے ہیں آپ انہیں دیکھیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق انہیں بلائیں، موقع دیں۔

انہوں نے کہا کہ میں روزے سے اور اللہ کے نام کے نیچے کھڑا ہوں، مجھے پی ٹی آئی کے کئی اراکین کے فون آئے ہیں کہ ہم استعفیٰ نہیں دینا چاہتے لیکن ہم پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

جس پر نومنتخب اسپیکر راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو ہدایت کی استعفوں کو سابقہ رولنگ اور مثالوں کے مطابق ڈیل کیا جائے اور تمام استعفے ڈی سیل کرکے میرے سامنے پیش کیے جائیں تا کہ ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر اہم رہنما شریک ہوئے۔

بعد ازاں اسپیکر راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 18 اپریل 2022 صبح 12 بجے تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس وقت اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جب سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انہیں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانی تھی۔

دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آج اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں