بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک ڈرائیور کے مبینہ قتل کے خلاف احتجاج کے دوران 4 افراد زخمی ہوگئے۔

مقامی انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ 15 اپریل کو ضلع نوکنڈی اور دالبندین میں احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پاک-افغان سرحد کے قریب پنچ ریک میں ایک ڈرائیور کو مبینہ طور پر اشارے کے باوجود تیز رفتاری سے گزرنے کی کوشش پر قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: چاغی میں احتجاج کے دوران 7مظاہرین زخمی

مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) ٹراما سینٹر سید یاسر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کے نتیجے میں زخمی ہونے والے 4 افراد کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر صحت بلوچستان سید احسان شاہ اور سیکریٹری صحت کی ہدایت پر فاٸرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو بہتر اور فوری طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ضلع چاغی میں فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیا اور کمشنر رخشاں ڈویژن سے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وزیراعلیٰ نے چاغی کے عوام سے تحمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرائیور کے جاں بحق ہونے کے واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور لواحقین سے کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے چیف سیکریٹری کو ڈی سی چاغی کے فوری تبادلے کا حکم دیا، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ گریڈ 19 کے افسر کو ڈپٹی کمشنر چاغی تعینات کیا گیا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس حوالے سے دعویٰ کیا کہ احتجاج کے دوران 6 افراد کو ‘فرنٹیئرکور (ایف سی) نے زخمی کردیا’۔

یہ بھی پڑھیں: چاغی: 4 سال سے لاپتا شخص کی مدفون لاش برآمد

انہوں نے کہا کہ ‘ہم اس حکومت کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں جب اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے، کیا یہ اعتماد سازی کے اقدامات ہیں، کیا کشیدگی ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے’۔

اخترمینگل کا کہنا تھا کہ ‘ہماری ترجیح بلوچستان ہے اور میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا’۔

خیال رہے کہ نوکنڈی اور دالبندین میں جمعے کو بھی احتجاج کے دوران 7 افراد زخمی ہوگئے تھے، جاں بحق ڈرائیور کی شناخت حمیداللہ کے نام سے ہوئی تھی اور ان کی لاش آرسی ڈی ہائی وے لائی گئی تو ڈرائیوروں اور شہریوں نے کئی گھنٹوں تک روڈ بلاک رکھا تاہم حکام کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔

شہری سیکیورٹی فورسز کے زیراستعمال عمارت کے باہر احتجاج کر رہے تھے اسی دوران سیکیورٹی فورسز نے مظٓہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور 7 مظاہرین زخمی ہوئے۔

زخمیوں کو نوکنڈی رورل ہیلتھ کیئر سینٹر منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی ہے، جس کے بعد 5 زخمیوں کو دالبندیں میں پرنس فہد ہسپتال بھیجا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا۔

ڈاکٹروں نے نے 2 زخمیوں کو مزید طبی امداد کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا۔

دالبندین میں چند مظاہرین نے شکایت کی تھی کہ کئی ڈرائیور اپنی گاڑیاں چھوڑ کر پیدل واپس نوکنڈی جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

انہوں نے خود کو بچانے کے لیے گاڑیاں چھوڑ جانے والے افراد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ گرم موسم میں انہیں واپس بلایا جائے۔

احتجاجی مظاہرین میں سے ایک حبیب نامی شخص کا کہنا تھا کہ ’میں ان ساتھیوں میں سے ایک ہوں جو 6 گھنٹے پیدل چلے، خوش قسمتی سے ہمیں آدھے راستے میں گاڑی مل گئی جس نے ہمیں نوکنڈی چھوڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہمیں سرحدی علاقہ چھوڑ کر واپس جانے کے لیے کہا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں