حکومت مسجد نبویﷺ واقعے کے خلاف قانونی کارروائی کا حصہ بننے کے حق میں نہیں، وزیر داخلہ

01 مئ 2022
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ لاہور میں  پریس کانفرنس کر رہے تھے—ڈان نیوز
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ لاہور میں پریس کانفرنس کر رہے تھے—ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ حکومت مسجد نبویﷺ واقعے کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا حصہ بننے کے حق میں نہیں، تاہم اگر لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ لوگ مقدمات درج کرانا چاہتے ہیں تو حکومت اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

لاہور میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مسجد نبویﷺ واقعہ پر پوری امت مسلمہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، مسجد نبویﷺ کے دلخراش، قابل افسوس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سیاسی عناد میں اندھے لوگوں نے مقدس مقام کی بے حرمتی کی، کچھ لوگوں نے ایک روز پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہاں اس طرح کا واقعہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:مسجد نبویﷺ واقعہ: حکومت کی سعودی عرب سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان بیانات کو سیاسی بیان بازی سمجھا، ہم یقین نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی شخص اتنا گیا گزرا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سیاس عناد کو ان مقدس مقامات تک بھی لے جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے مضمرات نہ صرف پاکستان بلکہ لندن تک میں اس کے شواہد ملے، پاکستان میں اس کام کے لیے لوگوں کو اکسایا گیا، اس کے بعد یہاں سے ایک صاحب ایک گروہ لے کر مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں سے بھی لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا اور اسی طرح برطانیہ سے بھی ایک گروہ وہاں پہنچا اور وہاں انہوں نے وہ عمل کیا جس سے پوری مسلم امہ اور بالخصوص پاکستان کے شہریوں کے جذبات مجروح ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس واقعے کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا حصہ بننے کے حق میں نہیں لیکن اگر لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ لوگ مقدمات درج کرانا چاہتے ہیں تو حکومت اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے عقیدے کو نقصان پہنچایا گیا ہے تو وہ قانونی راستوں پر چلتے ہوئے اداروں سے مدد لے سکتا ہے، حکومت کی جانب سے واضح ہدایات ہیں کہ قانون کے مطابق میرٹ پر کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی دھماکے میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، وفاقی وزیر داخلہ

ان کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے ایک شخص نے خود اعتراف کیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ یہ سب کیا ہے، یہ نمازیں پڑھنے بھی نہیں آئے اور ہم نے انہیں مسجد نبویﷺ میں آنے سے روکا ہے۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران بھی اسلام کو مختلف حوالوں سے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف مسجدِ نبوی ﷺ میں نعرے بازی کے بعد چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سابق حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف فیصل آباد میں مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

درج کیے گئے مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 (کسی مذہب کی عبادت گاہ کو توہین کے ارادے سے نقصان پہنچانا یا ناپاک کرنا)، 295 اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کارروائیاں کرنا جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے)، 296 (مذہبی اجتماع کو پریشان کرنا) اور 109 (کسی غلط عمل کی حوصلہ افزائی کرنا) شامل کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ای سی ایل رولز میں ترمیم، عدم ثبوت پر 120 دن میں نام خارج ہوگا، وزیر داخلہ

فیصل آباد میں عام شہری محمد نعیم کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں اور ایسوسی ایٹس فواد چوہدری، شہباز گِل، قاسم سوری، صاحبزادہ جہانگیر، انیل مسرت کے علاوہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ مسجدِ نبوی ﷺ میں پیش آنے والا واقعہ ’سوچی سمجھی اسکیم اور سازش‘ کا شاخسانہ ہے۔

کیا عمران خان قوم کو پھر 1940 میں لے جانا چاہتے ہیں'

ان کا کہنا تھا کہ اب عمران خان نے چاند رات کو لوگوں کو احتجاج کی کال دی ہے، چاند رات کو لوگ ایک دوسرے سے معافی تلافی کرتے ہیں، عید کی مبارکبادیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قوم نکلے اور بتائے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں جبکہ ہمیں آزاد ہوئے 74 سال ہوچکے ہیں، کیا یہ ہمیں ایک بار پھر 1940 میں لے جانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں پر الزامات ہیں، وہ سامنے آئیں اور قانون کے مطابق اپنی صفائی پیش کریں۔

درج مقدمے میں توہین رسالت کی دفعات شامل نہیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مقدمات کا درج ہونا صوبائی معاملہ ہے، یہ انتہائی افسوسناک اور تشویشناک واقعہ ہے جو ہمارے سب سے مقدس ترین مقام پر پیش آیا۔

یہ بھی پڑھیں:اب آئین شکن اور گھڑی چور جیلوں میں جائیں گے، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ

مسجد نبوی واقعہ کے خلاف درج ہونے والے مقدمہ پر قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے ساتھ ساتھ ضابطہ فوجداری دونوں جگہوں پر یہ شقیں رکھی گئی ہیں جو پاکستان پینل کوڈ دفعہ 3 اور 4 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 180 سے 188 کے درمیان درج ہیں ان کے مطابق اگر کوئی پاکستانی پاکستان کے باہر بھی کوئی ایسا عمل کرتا ہے جو پاکستان کے قوانین کے مطابق جرم ہے تو پاکستان میں بھی اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جو مقدمہ درج کیا گیا اس میں توہین رسالت کی دفعات شامل نہیں کی گئیں، یہ مقدمہ دفعہ 295 اور 296 کے تحت درج کیا گیا جن کے تحت مذہبی مقامات پر ہلڑ بازی، عبادات سے روکنا اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دفعات کا تعلق صرف اسلامی مقامات تک محدود نہیں، ان دفعات کے تحت تمام مذاہب سے متعلق مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسے میں واضح ہدایات ہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے، قانون، انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر کیسز چلنے چاہییں جس کو یقینی بنایا جائےگا۔

تبصرے (0) بند ہیں