ویکسینیشن کی کمی وزیرستان میں نئی پولیو کیسز کی وجہ قرار

اپ ڈیٹ 02 مئ 2022
شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کا خطرہ بڑھنے لگا — فائل فوٹو: اے ایف پی
شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کا خطرہ بڑھنے لگا — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک ہفتے کے وقفے سے پولیو کے دو کیسز سامنے آنے کے بعد شمالی وزیرستان کا قبائلی ضلع ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا ہے جہاں ان کیسز کی بنیادی وجہ والدین کی جانب سے پولیو ویکسین سے انکار ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکام نے کہا کہ انسداد پولیو ویکسین نہ لگوانے کہ وجہ سے شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی کی یونین کونسل 6 اور 7 کے رہائشی دو بچوں میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

حکام نے کہا کہ والدین کی لاپرواہی اور ویکسین لگانے والے عملے کے لیے سیکیورٹی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اتنی جلدی پولیو امیونائیزیشن کرنا بہت مشکل ہے۔

مزید پڑھیں: بل گیٹس کا وزیراعظم کو فون، پولیو کے خلاف مہم میں تعاون کی یقین دہانی

حکام نے مزید کہا کہ طالبان کے شمالی وزیرستان پر قبضے کے بعد یہ علاقہ 2014 تک پولیو وائرس کا مرکز تھا، انہوں نے کہا کہ ضلع میں 15 ماہ کے وقفے کے بعد دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کاغذات میں ہمارے پاس ایسے کیسز دو ہزار سے کم ہیں جنہوں نے پولیو ویکسن لگوانے سے انکار کیا جو مجموعی طور پر ایک فیصد سے کم ہے، لیکن پولیو ویکسن سے انکار کرنے والوں کی خاموش تعداد ریکارڈ شدہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں پولیو کا دوسرا کیس سامنے آیا ہے اس گاؤں کے نصف رہائشی پولیو تو دور کی بات معمول کے حفاظتی ٹیکے لگانے سے بھی انکار کرتے ہیں۔

حکام نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پولیو مہم کے لیے تعینات عملے کو والدین کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد انہوں نے ان کے بچوں کے نام ’ویکسین شدہ‘ کے طور پر درج کیے تھے مگر حقیقت میں ان بچوں کو پولیو ویکسین نہیں لگائی گئی، حکام نے یہ بھی کہا کہ ہمارے عملے نے خوف کہ وجہ سے ایسا کیا کیوں کہ ویکسین لگانے والا عملہ ان کو ’انکار‘ کرنے والوں کے طور پر رپورٹ نہیں کر سکتا۔

علاقے میں موجود ہیلتھ ورکرز نے اس رپورٹ کے مصنف کو بتایا کہ حفاظتی ٹیکوں سے محروم بچوں کی ایک چھوٹی تعداد تمام بچوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ علاقے میں مزید کیسز سامنے آئیں گے کیونکہ پاخانے کے نمونوں کی وصولی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس اور آرمی چیف کا پولیو کے خاتمے اور کورونا وائرس مہم پر تبادلہ خیال

انہوں نے مزید کہا کہ پولیو سے متاثرہ چھوٹے بچوں کے قریبی رابطوں سے پانچ پانچ نمونے تجزیہ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔

22 اپریل کو جس بچے کا پولیو کا ٹیسٹ مثبت آیا اس کے چچا نے دعویٰ کیا کہ ان کے بچے نے گھر گھر پولیو مہم کے دوران پولیس ویکسین بھی کروائی تھی، مگر اس کے باوجود بھی اس میں معذروی کی تشخیص ہوئی ہے۔

تاہم علاقے میں موجود صحت کے حکام نے اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس بچے کو پولیو ویکسین نہیں لگائی گئی تھی جس کہ وجہ سے وہ اس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔

حکام نے بتایا کہ دو سالہ بچی، جس کا پولیو مائیلائٹس کا ٹیسٹ مثبت آیا، کو بھی حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے تھے، اس بچی نے معمول کے حفاظتی ٹیکوں میں سے بھی ایک شاٹ نہیں لگوایا تھا۔

شمالی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر گلستان وزیر نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے سیرولوجی ایگزامنیشن کے لیے نمونہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اسلام آباد کو بھیج دیا ہے تاکہ ویکسی نیشن کی صورتحال معلوم کی جاسکے اور رپورٹ کا انتظار ہے، پولیو کے لیے نیشنل آپریشن سینٹر (این او سی) کے رہنما خطوط کے مطابق ہم نے 15 یونین کونسلوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا عمل مکمل کر لیا ہے تاکہ بچوں کو بیماری سے محفوظ رکھا جا سکے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 15 ماہ بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ

انہوں نے مزید کہا کہ پہلا کیس یونین کونسل نمبر چھ اور دوسرا یونین کونسل نمبر سات میں سامنے آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پانچ سال سے کم عمر کے 78 ہزار سے زائد بچوں کو ویکسین پلائی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس 23 یونین کونسلوں میں ایک لاکھ 10 ہزار بچوں کو ویکسین پلانے کا کُل ہدف تھا اور انہیں ہر مہم میں پولیو ویکسین کے شاٹس دیے گئے تھے۔

گلستان وزیر نے مزید کہا کہ ہر مہم میں ہم نے 526 ٹیمیں تعینات کیں جن میں سے ہر ایک میں دو افراد شامل ہوتے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مخصوص سیکیورٹی تعینات کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہر ایک بچے کو قطرے پلائے جائیں اور وہ معذور ہونے سے محفوظ رہیں۔

ڈی ایچ او نے مزید کہا کہ سیکیورٹی اہلکار بہت مدد کرتے ہیں کیونکہ ہم مشکل اور دور دراز علاقوں میں بغیر کسی خوف کے کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت نے ویکسین کرنے والے عملے کے لیے فیس فی مہم 10 ہزار تک کردی ہے تاکہ ویکسین کے عمل کو مزید بہتر بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلی مرتبہ 12ماہ تک پولیو کیس رپورٹ نہ ہونے کا ریکارڈ

ڈاکٹر گلستان نے کہا کہ ان کے پاس 700 کے قریب پیرامیڈیکس تھے، جنہیں عام مریضوں کے لیے 1200 صحت کی سہولیات میں بھی کام کرنا تھا، اس لیے وہ چوتھے درجے کے ملازمین کے لیے مہم میں اپنی خدمات سے استفادہ کے لیے ایک میگا ٹریننگ ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

پشاور میں یونیسف کے دفتر کے مطابق مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور صوبے میں مارچ 2022 کی مہم میں 18 ہزار 349 افراد کو بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کیا جو دسمبر 2021 کے مقابلے میں کم ہے جب 19 ہزار 374 افراد نے ویکسین پلانے سے انکار کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں