یوکرینی شہر ماریوپول سے شہریوں کا انخلا، روسی گولہ باری کا پھر آغاز

اپ ڈیٹ 02 مئ 2022
انخلا کرنے والے شہروں پر مشتمل پہلا گروپ پیر کے روز یوکرین کے زیر قبضہ شہر ماریوپول کے شمال مغرب میں پہنچنا تھا—فوٹو:رائٹرز
انخلا کرنے والے شہروں پر مشتمل پہلا گروپ پیر کے روز یوکرین کے زیر قبضہ شہر ماریوپول کے شمال مغرب میں پہنچنا تھا—فوٹو:رائٹرز

یوکرین کے تباہ حال ساحلی شہر ماریوپول سے مزید شہریوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ سیکڑوں افراد اب بھی ازوسٹال اسٹیل ورکس میں پھنسے ہوئے ہیں جو روسی محاصرے کے خلاف مزاحمت کا آخری مقام ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق انخلا کرنے والے شہروں پر مشتمل پہلے گروپ کو پیر کے روز یوکرین کے زیر قبضہ شہر ماریوپول کے شمال مغرب میں پہنچنا تھا، تاہم شہر کے عہدیدار نے بتایا کہ اتوار کو جب پلانٹ سے جیسے ہی بسیں باہر نکلیں تو روسی افواج نے اسٹیل ورکس پر دوبارہ گولہ باری شروع کی۔

شہر میں پھنسے ہوئے لوگوں کے پاس پانی، خوراک اور ادویات ختم ہو رہی ہیں جبکہ روسی افواج نے انہیں صنعتی کمپلیکس میں محصور کردیا ہے جہاں بنکرز اور سرنگوں کے سلسلے میں ہفتوں سے جاری روسی بمباری کے دوران شہریوں کو پناہ حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا نے روس پر نئی پابندیاں عائد کردیں، 10 سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم

یوکرین کی نائب وزیر اعظم ایرینا ویریشچک کا اس صورت حال پر کہنا تھا کہ صورت حال ایک حقیقی انسانی تباہی کی علامت بن گئی ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی افواج اب تقریباً تمام شہر پر کنٹرول میں ہیں جو روس کے زیر قبضہ علاقوں کو مغرب اور مشرق سے ملا رہی ہے۔

صدر ولادیمیر زیلنسکی نے رات کو ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ پہلی بار، ہمارے پاس اس مقام پر دو دن کی جنگ بندی تھی اور اس دوران ہم 100 سے زیادہ عام شہریوں، خواتین، بچوں کو نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

ماسکو اپنے حملے کو یوکرین کو غیر مسلح کرنے اور اس سے مغرب کی جانب سے پھیلائی گئی روس مخالف قوم پرستی سے نجات دلانے کے لیے ایک 'خصوصی فوجی آپریشن' قرار دیتا ہے۔

یوکرین اور مغرب کا کہنا ہے کہ روس نے جارحیت کرتے ہوئے ایک بلا اشتعال جنگ شروع کی ہے اور اس تنازع کو مزید گھمبیر ہونے کا خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:روس نے یوکرین کے سر پر بندوق تان رکھی ہے، برطانوی وزیراعظم

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ماسکو صرف مشرق میں روس نواز یوکرینی باشندوں کی سلامتی کی ضمانت چاہتا ہے اور امن کی شرط کے طور پر ولادیمیر زیلنسکی سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔

سرگئی لاروف نے اپنی وزارت کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہمارا مقصد یوکرین میں حکومت کی تبدیلی نہیں ہے۔'

'9 مئی تک جنگ ختم کرنے کا ارادہ نہیں'

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم یوکرین میں 9 مئی کو یوم فتح تک اپنی جنگ ختم کرنے نہیں جا رہے جبکہ ملک ایک مہلک تنازع کے چھائے بادلوں کے سائے میں کلیدی سالگرہ منانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:برطانوی وزیراعظم، وزرا سمیت 10 حکومتی عہدیداروں پر روس میں داخلے پر پابندی

اطالوی صحافتی ادارے میڈیا سیٹ کے ساتھ بات کرتے ہوئے سرگئی لاوروف نے اصرار کیا کہ ماسکو اپنی خصوصی فوجی کارروائی ملک کی سالگرہ منانے کے لیے ختم کرنے کے لیے جلدی نہیں کرے گا، سالگرہ کے دوران نازی جرمنی کی جانب سے 1945 میں اتحادی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا جشن منایا جاتا ہے۔

سرگئی لاروف نے اتوار کو جاری ہونے والے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہماری فوج مصنوعی طور پر اپنے اقدامات کو یوم فتح سمیت کسی بھی تاریخ کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین میں آپریشن کی رفتار کا انحصار سب سے پہلے شہری آبادی اور روسی فوجی اہلکاروں کے لیے کسی بھی خطرے کو کم کرنے کی ضرورت پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

روس عام طور پر یوم فتح کو شان دار انداز میں مناتا ہے، جس میں ماسکو کے مرکز میں ایک بڑی فوجی پریڈ اور صدر ولادیمیر پیوٹن کی تقریر بھی شامل ہوتی ہے جس میں وہ یورپ میں فاشزم کی شکست میں ملک کے اہم کردار کی تعریف کرتے ہیں۔

لیکن اس سال کی تقریبات یوکرین میں ماسکو کی خونریز فوجی مہم کے پس منظر میں ہوں گی، جس سے ولادیمیر میرپیوٹن نے اس دعوے کے ساتھ درست قرار دیا ہے کہ سابق سوویت ملک کو دوسری جنگ عظیم کے لیے 'نازی ازم سے پاک کرنے' کی ضرورت ہے۔

سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ 'ہم ہمیشہ کی طرح 9 مئی کو پورے جذبے سے منائیں گے، ان لوگوں کو یاد رکھنے کے لیے جو روس اور سابقہ سوویت یونین کی دیگر ریاستوں کی آزادی کے لیے یورپ کو نازی ازم کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے مارے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں