چیف جسٹس عمر عطابندیال ٹائم میگزین کے سال کے 100 بااثرترین افراد میں شامل

23 مئ 2022
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے رواں برس کے اوائل میں چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تھا—فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے رواں برس کے اوائل میں چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تھا—فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطابندیال کو امریکی ٹائم میگزین کے 2022 کے بااثرترین افراد میں شامل کرلیا۔

میگزین کے بااثرترین افراد کی فہرست کے لیے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی پروفائل معروف قانون دان اعتزاز احسن نے تحریر کی اور انہیں لیڈرز کی کیٹگری میں رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا

پروفائل میں لکھا گیا کہ جسٹس عمر عطابندیال کو ان کی ذاتی دیانت داری کی وجہ سے احترام سے جانا جاتا ہے اور وہ کولمبیا اور کیمبرج سے فارغ التحصیل قانون دان ہیں اور وہ نہ صرف انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ایسا کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

ملک کے معروف قانون دان نے چیف جسٹس کی پروفائل ملک کی سیاسی صورت حال کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے، جہاں وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا لیکن سپریم کورٹ کا کردار بھی اس معاملے پر اہم رہا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ میں ملک میں آئینی اور سیاسی بحران کو ٹال دیا۔

اعتزاز احسن نے چیف جسٹس کے بارے میں لکھا کہ ‘پاکستان 22 کروڑ آبادی کا حامل ملک ہےجہاں تاحال غیریقینی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے، دشمن ہمسائیگی میں خراب معیشت کے ساتھ ملک کے حالات عمران خان کو فوج کی پشت پناہی کے ذریعے متحدہ اپوزیشن کی جان بسے حکومت سے ہٹانے سے پہلے بھی خراب تھے’۔

یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

معروف قانون دان نے چیف جسٹس کے بارے میں کہا کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال ‘شائستہ، کم گو اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے والے چیف جسٹس آف پاکستان’، کے طور پر اس وقت اسکرین پر نظر آئے جب عالمی مارکیٹ کے ساتھ ایک اور بحران جنم لے رہا تھا، جس سے قومی معیشت اور سول-ملیٹری تعلقات ایک مرتبہ پھر تناؤ ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ‘اپریل کے اوائل میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا’۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ‘انتخابات کے قریب آتے ہی جیسے دوسروے اداروں نے سینگ چڑھائے تو عدالت حتمی ثالث بن گیا جوکہ سیاست دان چیف جسٹس کے فیصلے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں’۔

ٹائم میگزین کے 2022 کے بااثر ترین شخصیات کی فہرست یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔

جسٹس عمر بندیال کا پیشہ ورانہ سفر

جسٹس عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوہاٹ، راولپنڈی، پشاور، اور لاہور سے حاصل کی، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی سے معیشت میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔

مزید پڑھیں: عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر

بعد ازاں انہوں نے کیمبرج سے لا ٹرائپوس ڈگری حاصل کی اور لندن کے معروف لنکنز ان میں بطور بیرسٹر خدمات انجام دیں۔

1983 میں آپ بطور ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ کی فہرست میں شامل ہوئے اور چند سال بعد بطور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان خدمات انجام دیں۔

لاہور میں اپنی پریکٹس کے دوراب جسٹس بندیال نے عموماً کمرشل بینکنگ، ٹیکس اینڈ پراپرٹی کے معلامات حل کیے، وہ 1993 کے بعد جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے تک آپ نے بین الاقوامی تجارتی تنازعات کو بھی سنبھالا۔

جسٹس عمر بندیال سپریم کورٹ، لندن اور پیرس کی متعدد بین الاقوامی عدالتوں میں بطور ثالث بھی پیش ہوچکے ہیں۔

جسٹس عمر بندیال کو 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نومبر 2007 کے پروویژنل کونسٹی ٹیوشنل آرڈر (پی سی او) کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت 3 نومبر 2007 کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: قائم مقام چیف جسٹس کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے طویل ملاقات

تاہم عدالت کی بحالی کے سلسلے میں وکلا تحریک کے نتیجے میں انہیں جج کے عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس عمر بندیال نے دو سال کے لیے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خدمات انجام دیں جبکہ جون 2014 میں ان کا تقرر سپریم کورٹ میں کردیا گیا۔

اعلیٰ عدلیہ میں اپنے کیریئر کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے سرکاری اور نجی قانون کے مسائل پر کئی اہم فیصلے سنائے، ان میں دیوانی اور تجارتی تنازعات، آئینی حقوق اور مفاد عامہ کے معاملات شامل ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے 1987 تک پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور میں کنٹریکٹ لا اور ٹارٹس لا بھی پڑھایا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس کی گریجویٹ اسٹڈیز کمیٹی کے رکن رہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

شنکر لعل May 24, 2022 09:42am
عدالتوں میں کیسز کا بیک لاگ لامحدود اور ٹائیم میگزین کی فہرست پر تصویر ۔۔ حد ہے جو ججز ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ان کی مراعات چھین کر ان کے دور کا بیک لاگ ختم کرایا جائے