آبپاشی کیلئے پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی، اِرسا نے صوبوں کو خبردار کردیا

اپ ڈیٹ 25 مئ 2022
ملک میں پانی کے ذخائر میں مزید قلت پیش آنے کا خدشہ ہے جس سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملک میں پانی کے ذخائر میں مزید قلت پیش آنے کا خدشہ ہے جس سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان میں آبپاشی کے لیے پانی کی قلت 45 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کے سبب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) صوبوں کو یہ درخواست کرنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ پانی کی شدید قلت کے سبب مستقبل کے لیے دریائے سندھ میں موجود دستیاب پانی کو مؤثر، منصفانہ اور احتیاطی طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے منصوبہ سازی کریں۔

مزید بتایا گیا کہ ملک بھر میں پانی کی قلت کی سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارسا نے صوبوں کے محکمہ آبپاشی کے سیکریٹریز سے درخواست کی ہے کہ پانی کی صورتحال میں بہتری تک صوبوں میں موجود پانی کو بغیر کسی ضیاع کے استعمال میں لائیں۔

مزید کہا گیا کہ آبپاشی کے لیے پانی میں بہتری جون کے درمیان میں متوقع ہے۔

ارسا نے صوبوں کے محکمہ آبپاشی کے سیکریٹریز کو مشترکہ خط میں لکھا ہے کہ حالیہ دنوں 40 سے 45 فیصد پانی کی قلت کو سندھ اور پنجاب کے بیراجوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں صوبوں میں 5 سے 15 دن کے وقفے کے ساتھ 'انڈس بیسن اِریگیشن سسٹم' میں بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اس وقت ذخائر میں پانی موجود نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: تربیلا ڈیم، چشمہ بیراج پر پانی کی سطح میں کمی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجادی

مزید بتایا گیا کہ پنجاب کو موجودہ ضرورت یعنی ایک لاکھ 13 ہزار کیوسک کے برعکس 65 ہزار کیوسک پانی دیا جارہا ہے، اسی طرح سندھ کو بھی ایک لاکھ 13 ہزار کیوسک کے برعکس صرف 66 ہزار کیوسک پانی دیا جارہا ہے۔

اس صورتحال میں قلت سے مستثنیٰ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو ان کے حصے کا مکمل پانی یعنی 13 ہزار کیوسک بلوچستان کو اور 3 ہزار کیوسک پانی خیبر پختونخوا کو دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت اہم چیلنج دریائے جہلم اور چناب میں درپیش ہے جہاں دریاؤں کا بہاؤ اس سال کے حساب سے 45 فیصد کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منگلا ڈیم میں دریائے جہلم میں پانی کا بہاؤ 27 ہزار کیوسک ہے جو گزشتہ برس 55 ہزار کیوسک تک تھا، جبکہ دریائے چناب میں بھی پانی کا بہاؤ 24 ہزار کیوسک ہے جو گزشتہ سال 38 ہزار کیوسک تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ منگل کو رم اسٹیشنوں (بیراجوں اور کینالوں) پر پانی کی کل آمد ایک لاکھ 44 ہزار 800 کیوسک ریکارڈ کی گئی جبکہ ایک دن قبل ایک لاکھ 56 ہزار 600 کیوسک اور 10 سال کی اوسط 2 لاکھ 30 ہزار 400 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔

ارسا نے اس پر مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس منظرنامے سے یہ واضح ہے کہ سسٹم میں پانی کی مزید قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کا 20 مئی کو ہی اندازہ لگایا گیا تھا۔

ارسا نے کہا کہ یہ صورتحال دریاؤں کے بالائی علاقوں میں موسمی حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے 19 مئی کو اسکردو کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 28 ڈگری سینٹی گریڈ سے گر کر 16 سے 21 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان آگیا ہے جو گزشتہ چار دنوں سے اسی سطح پر برقرار ہے۔

ارسا نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ بالائی علاقوں سے آنے والے پانی کی کم آمد نے پہلے سے ہی تقریباً خالی ذخیروں کو متاثر کیا ہے جس میں مشترکہ ذخائر 10 سالہ اوسط 3.238 ملین ایکڑ فٹ کے برعکس 0.191 ملین ایکڑ فٹ ہیں۔

انفرادی طور پر تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ ڈیڈ لیول 1398 فٹ پر ریکارڈ کیا گیا جبکہ منگلا ڈیم میں ذخیرہ 0.168 ملین ایکڑ فٹ اور چشمہ کینال میں 0.023 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو آنے والے 24 گھنٹوں میں مزید کم ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پانی کی قلت: سندھ کو ’آفت زدہ‘ صوبہ قرار دینے کا مطالبہ

رپورٹ کے مطابق پانی کی تازہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کی آبی وسائل پر قائمہ کمیٹی کا اجلاس آج بلایا گیا ہے جس میں کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ کمیٹی دو ہفتے قبل تونسہ، پنجند، گدو اور سکھر بیراجوں اور متعلقہ کینالوں میں پانی کے بہاؤ کا معائنہ اور نگرانی کرکے صوبوں کے درمیان پانی کی فراہمی پر خدشات کو دور کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی تاہم، توقع ہے کہ کمیٹی بدھ کو اپنے نتائج قومی اسمبلی کے پینل کو پیش کرے گی۔

دریں اثنا بلوچستان کے وزیر آبپاشی محمد خان لہری نے سیکریٹری آبپاشی عبدالفتح بانگڑ کے ہمراہ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ سے ملاقات کی اور بلوچستان سے متعلق شکایت کی کہ ارسا کی جانب سے مختص کردہ پانی کے حساب سے بلوچستان کو قلت کا سامنا ہے باوجود اس کے کہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انفرااسٹرکچر رکارٹوں کی وجہ سے پانی کی قلت کے اطلاق سے مستثنیٰ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گدو اور تونسہ بیراج میں پانی کا بہاؤ ’کم‘ ہونے سے متعلق سندھ کا دعویٰ درست ثابت

بلوچستان کے وزیر آبپاشی نے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سے شکایت کی کہ صوبے میں پانی کی قلت سے فصلوں پر ناقص اثرات ہوں گے اور ڈیری کی پیداوار بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے بلوچستان کے وزیر آبپاشی اور سیکریٹری کو یقین دہانی کرائی کہ پانی کے بہاؤ میں جیسے ہی بہتری آئے گی تمام صوبوں کو ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور پانی کی فراہمی میں لاپرواہی، غیر ذمہ داری، بے ایمانی اور چوری ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں