سپریم کورٹ کا عمران خان کو گرفتار نہ کرنے، احتجاج کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 25 مئ 2022
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ  ویب سائٹ
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار نہ کرنے اور احتجاج کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 اور جی 9 کے درمیان جگہ فراہم کرنےکا حکم دے دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی، بینچ کے دیگر دو ججوں میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ’لانگ مارچ‘ کے شرکا کو ہراساں کرنے کےخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سوا پانچ بجے سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے مزید وقت دینے کی استدعا کی جس کو عدالت نے منظور کی جس کے بعد اٹارنی جنرل وزیر اعظم سے ہدایات لے کر دوبارہ عدالت پہنچ گئے جس کے بعد عدالت نے حکم سنانا شروع کردیا۔

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حکم میں کہا کہ پی ٹی آئی کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان جگہ فراہم کی جائے۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سری نگر ہائی وے پر ریلی جبکہ ایچ نائن میں احتجاج کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے حکم دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے احتجاج کے لیے سری نگر ہائی وے اور جی نائن گراونڈ دینے کی مخالفت کی اور کہا کہ جی نائن گراونڈ پر ریلی کی درخواست مسترد کرچکے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف کمشنر کا مؤقف بھی سن لیتے ہیں، وہاں موجود چیف کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔

عدالت میں پاکستان تحریک انصاف کی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی پر اجازت دی گئی تاہم عدالت نے سری نگر ہائی وے پر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل نہ ڈالنے کی بھی ہدایت کردی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ لاکھوں میں ہوں گے، جے یو آئی نے جہاں جلسہ کیا وہاں صرف 15 ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔

وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی، جس کا اجلاس چیف کمشنر آفس میں ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں کے وزرا کو بھی مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے، وزیر قانون کی سربراہی میں یوسف رضا گیلانی، فیصل سبزواری، آغا جان، اسعد محمود اور خالد مگسی بھی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے کمیٹی میں بابر اعوان، فیصل چوہدری، عامرکیانی اور علی نواز اعوان شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومتی اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس رات کو 10 بجے بلایا جائے اور حکم میں کہا کہ جن وکلا پر کوئی سنگین الزام نہیں ہے انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ ٹاپ لیڈر شپ اپنے ورکرز کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت دے گی، امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ طاقت کا استعمال فوری طور پر ختم کردے گی۔

حکم میں کہا گیا کہ شہریوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں اور شہریوں کو بلاوجہ تنگ نہ کیا جائے اور مظاہرین بھی پر امن رہیں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آرز کے بغیر گرفتار تمام افراد کو فوری رہا کیا جائے تاہم جن لوگوں پر کریمنل مقدمات ہیں، ہائی کورٹ ان کا جلد فیصلہ کریں۔

سپریم کورٹ نے حکومت کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا اور کہا کہ وزارت داخلہ طاقت کا غیر ضروری استعمال نہ کرے اور گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران پکڑی گئی ٹرانسپورٹ کو ریلیز کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے چادر اور چار دیواری کا تقدس یقینی بنانے اور پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی او کے تحت گرفتار کارکنوں اور قائدین کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں سماعت

قبل ازیں جب عدالت عظمیٰ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، معیشت کے حوالے سے ریمارکس میڈیا کو چلانے سے روکا جائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو معیشت سے متعلق ریمارکس سے گریز کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جو ریمارکس آپ یہاں دیتے ہیں وہ اہم مالیاتی اداروں تک بھی پہنچتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، ملکی صورتحال کی معلومات لینے کا وقت دیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کردیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: پولیس، انتظامیہ کو پی ٹی آئی کارکنان کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ کو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اسکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹی فکیشن جاری ہوئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کا اعلان

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔

درخواست گزار صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پولیس، وکلا کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے پولیس نے چھاپہ مارا، مظاہرین اور حکومت دونوں ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ابھی تو احتجاج شروع ہی نہیں ہوا تو مسلح افراد کہاں سے آگئے؟

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کے لیے جگہ مختص کی جاسکتی ہے۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے علاوہ سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، وکلا سمیت عام لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھسا جارہا ہے، احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں، ہائی کورٹ بار صرف شہریوں کے حقوق کے لیے عدالت آئی ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے زیر التوا کیسز میں جاری احکامات بھی طلب کر لیے اور سماعت میں وقفہ کردیا۔

عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، اٹارنی جنرل

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کے علاوہ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت پہنچے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جی اٹارنی جنرل صاحب، بتائیں کیا ہدایات لی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت مانگی تھی لیکن سیکیورٹی صورتحال کے باعث سری نگر ہائی وے پر اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان پر خودکش حملے کا خدشہ ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جارہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے میں کیا مزا آتا ہے؟ حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب، جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری لیتے ہیں؟

جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا صوبوں کا کام ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟

جسٹس استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارنا خلاف قانون ہے۔

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، حساس اداروں کی رپورٹس پر ہی کارروائی ہو رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر احتجاج اور باہمی احترام کا میثاق کرنا ہوگا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ حکومتی عہدیداران کے بیانات دیکھیں، بطور حکمران آپ کا کام ہے کہ پہل کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈاکٹرز کے لیے ہسپتال جانا مشکل ہو چکا ہے، کاروبار نہیں چلے گا تو لوگوں کے بچے کھائیں گے کہاں سے؟

سپریم کورٹ کی لانگ مارچ کیلئے جگہ فراہم کرنے کی ہدایت

صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کے لیے پورا ملک بند کر دیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔

سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لیے متبادل انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ لانگ مارچ کے لیے مناسب جگہ فراہم کریں، لانگ مارچ کی جگہ پر مظاہرین کو رسائی دینے کے لیے ٹریفک پلان بنایا جائے، یہ اپنا احتجاج کریں اور گھروں کو جائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے کہ احتجاج پرامن ہوگا، املاک کو نقصان نہ پہنچے اور تشدد اور سڑکیں بلاک نہ ہوں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی اور اٹارنی جنرل معاملے کا حل نکالیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے وکیل ہدایات لے کر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں، ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو ہدایات لینے کے لیے ڈھائی بجے تک کا وقت دے دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خدشہ تو لسٹ دے دیں، جنہیں گرفتاریوں کا خدشہ ہے انہیں تحفظ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے بھی مفاد ہیں لیکن عوام اور ملک کے سامنے سیاسی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سب بہاریں پاکستان کے ساتھ ہیں ملک کی بہاروں کو آپس کی لڑائیوں میں خزاں میں تبدیل نہ کریں، سیاست میں آج ایک اور کل دوسرا ہوگا۔

دورانِ سماعت ‏سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد ناصر اکبر خان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب، اپنے آپ کو کنٹرول کریں، اپنے اختیارات احتیاط سے استعمال کریں، پہلے ہی آپ کا بہت بوجھ ہے ،جو آپ اٹھائے پھر رہے ہیں۔

عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے 4 رکنی کمیٹی بنائی ہے، بابراعوان

پی ٹی آٸی کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ23 مئی کو جلسے کی اجازت مانگی گئی تھی لہٰذا عدالت حکومت کو احکامات جاری کرے کہ سڑکیں فوری طور پر کھول دی جائیں۔

بابراعوان نے کہا کہ ہمارے گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے، وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ جو حکم دے گی اس پر عمل ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو 5 نکات دیے اور کہا کہ وہ وزیر عظم سے ہدایات لیں۔

جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ کیا لاٹھی چارج کرنا، آگ لگانا، گاڑیوں کے شیشے توڑنا پولیس کا کام ہے اور اس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے سماعت میں وقفہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گھنٹہ کے بعد پھر اکھٹے ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں سماعت میں ایک گھنٹے کے وقفے بعد ایک مرتبہ پھر سماعت شروع ہوئی اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فیض آباد یا موٹروے بند کرنے سے کام نہیں ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کرائیں گے اور بیان حلفی لیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ نےکچھ عرصہ قبل احتجاج سےمتعلق جووعدہ عدالت سے کیا تھا وہ پورا کیا جس پر بابراعوان نے کہا کہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کوئی فوڈ چین نہیں ٹوٹے گی، حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط اور اعتماد کا فقدان ہے لیکن ان شااللہ عدم توازن ختم ہوجائے گا۔

بابراعوان نے کہا کہ عمران خان نے انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، کمیٹی میں میرے علاوہ فیصل چوہدری، عامر کیانی اور علی اعوان شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی تھی جہاں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے دو مرتبہ دھرنا دیا اور ہم بھی وہیں احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔

بابر اعوان نے نے پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی اور عدالت سے فوری طور پر شیلنگ رکوانے کی استدعاکی۔

عدالت اس معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے، جسٹس اعجازالاحسن

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ‏عدالت اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کررہی ہے، پاکستان ‏تحریک انصاف دھرنے کا دورانیہ بتائے تو بابراعوان نے عدالت کو دھرنے کا دورانیہ بتانے سے معذرت کر لی۔

دھرنے کے دورانیے سے متعلق بابراعوان نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں، ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں گا۔

بابراعوان نے کہا کہ عمران خان اور پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ‏ ‏احتجاج روکنے کے لیے چھاپے اور گرفتاریاں غیر قانونی عمل ہے، ‏پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تحریک انصاف کے مطالبات واضح ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام نے جہاں دھرنا دیا وہاں اجازت دی جائے، توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کچھ دیر میں مذاکرات کے لیے وزرا کی ٹیم نامزد کریں گے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ‏شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کریں گے۔

ایم پی او کے تحت ایف آئی آرز نہیں چلیں گی، جسٹس مظاہر نقوی

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ‏ایم پی او کے تحت ہونے والی ایف آئی آرز نہیں چلیں گی، ‏ایم پی او کے حوالے سے بھی حکم نامہ جاری کریں گے۔

‏سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب پولیس کے اقدامات پر اظہار برہمی کیا اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ‏کیا پولیس کا کام گاڑیاں توڑنا اور آگ لگانا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ‏لاہور میں ایک گھر سے اسلحہ برآمد ہوا ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ‏اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے، ‏صبح سے کیا اسلحے والی کہانی سنائی جا رہی ہے، ‏اسلحہ کہانی اب بند کر دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ‏لاہور کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے، ‏پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بدقسمتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں