جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا تاثر ختم کریں، جسٹس اطہر من اللہ

اپ ڈیٹ 26 مئ 2022
یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا تاثر ختم کرے، جسٹس اطہر من اللہ — فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ جبری گمشدگیوں میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کا تاثر ختم کرے، جسٹس اطہر من اللہ — فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جیسا کہ مسلح افواج آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت کے ماتحت ہے تو یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ریاستی اداروں کے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کا تاثر ختم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا افراد سے متعلق ایک درخواست پر سماعت کی، جہاں انہوں نے وزارت داخلہ کے سیکریٹری سے یہ سوال کیا کہ وہ وضاحت پیش کریں کہ عوام کی آزادی کا تحفظ نہ کرنے پر عدالت موجودہ اور سابق حکومتی سربراہان اور وزرائے داخلہ کے خلاف سماعت کیوں نہ کرے۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگی سے متعلق بل پر آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کا کہا گیا، شیریں مزاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو احکامات جاری کیے کہ یا تو وہ 5 لاپتا افراد کو پیش کرے یا پھر عدالت ذمہ داران اور سابق وزرائے داخلہ کو پیش ہونے کے احکامات جاری کرے گی کیونکہ جبری گمشدگیاں آئین کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے سوال کیا کہ کیا سابق اور ذمہ داران صدر اور گورنرز نے جبری گمشدگیوں سے متعلق سالانہ رپورٹ طلب کی تھیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک سابق حکومتی سربراہ کی کتاب ’اِن لائن آف فائر‘ کا حوالہ دیا کہ کتاب میں سابق حکومتی سربراہ نے ’جبری گمشدگیوں‘ کو ریاستی حکمت عملی قرار دیا تھا تو اب حکومت کو اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 17 جون تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کرائی گئی جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2011 سے لے کر اب تک 8 ہزار 463 لاپتا افراد میں سے صرف 3 ہزار 284 افراد اپنے گھر واپس آئے ہیں۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 228 افراد مقابلوں میں مارے گئے ہیں اور متعلقہ پولیس نے مقابلوں کی ایف آئی آر ریاست کی بنا پر درج کرکے قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا شیریں مزاری کی رہائی، حکومت کو عدالتی انکوائری کا حکم

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ 946 افراد کو ایکشن (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشنز 2011 کے تحت حراستی مراکز میں قید ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور متعلقہ ’اداروں‘ کی جانب سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 584 لوگوں سے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ انہیں مجرمانہ اور دہشت گردی کے الزامات میں زیر سماعت قیدیوں کے طور پر جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔

جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ مکمل تفتیش کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک ہزار 178 کیسز جبری گمشدگیوں کے طور ثابت نہیں ہوئے کیونکہ ان کیسز میں لاپتا افراد یا تو خود گئے ہیں یا یہ کیسز اغوا برائے تاوان یا ذاتی دشمنی سے متعلق ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں