بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی برتری

اپ ڈیٹ 30 مئ 2022
بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کا آغاز 8 بجے ہوا اور 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا — فوٹو: ڈان نیوز/پی پی آئی/ آن لائن
بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کا آغاز 8 بجے ہوا اور 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا — فوٹو: ڈان نیوز/پی پی آئی/ آن لائن

بلوچستان کے 32 اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج میں آزاد امیدواروں کی برتری برقرار ہے، ووٹنگ کے دوران ہنگامہ آرائی کے چند واقعات میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 30 زخمی ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رات گئے موصول ہونے والے غیر سرکاری نتائج میں میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی اور یونین کونسلز کی ایک ہزار نشستوں پر آزاد امیدواروں کی برتری برقرار ہے، صوبے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) دوسرے نمبر پر ہے اور 100 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ برسرِ اقتدار بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 71 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 39 نشستیں، نیشنل پارٹی نے 33، پاکستان پیپلز پارٹی نے 26 اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے 18 سیٹیں حاصل کی ہیں۔

گزشتہ روز بلوچستان کے 32 اضلاع کے 4 ہزار 456 شہری و دیہی وارڈز میں بلدیاتی انتخابات کی پولنگ ہوئی جو شام 5 بجے اختتام پذیر ہوئی، اس دوران صوبے کے مختلف حصوں میں تشدد و ہنگامہ آرائی کی رپورٹس بھی موصول ہوتی رہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: بلدیاتی انتخابات میں ایک ہزار 584 امیدوار بلا مقابلہ منتخب

صوبے کے مختلف علاقوں میں حریف گروپوں کے درمیان تصادم، فائرنگ اور گرینیڈ حملے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے، کچھ اسٹیشنز پر پولنگ کا عمل معطل کردیا گیا۔

بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کا آغاز 8 بجے ہوا اور 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہا جبکہ ووٹوں کی گنتی رات گئے تک جاری رہی۔

مکران کے ماہی گیروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے حقوق کے لیے لڑنے والی گوادر حقوق تحریک نے ساحلی ضلع گوادر میں کلین سوئپ کیا جبکہ نیشنل پارٹی نے تربت شہر میں 29 نشستیں جیت کر بھرپور کارکردگی دکھائی۔

بی این پی-ایم، نیشنل پارٹی، جے یو آئی-ایف اور پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی) پر مشتمل 4 جماعتی اتحاد ساحلی ضلع میں حمایت حاصل نہیں کر سکا۔

غیر سرکاری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’گوادر کو حق دو تحریک‘ نے میونسپل کمیٹی کی 30 نشستوں میں سے 27 پر کامیابی حاصل کی ہے، تحریک نے اوڑمارا اور پسنی میں بھی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا جہاں ووٹرز بالخصوص خواتین نے ان دو میونسپل کمیٹیوں میں اکثریت حاصل کرنے میں مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات پر عوام کیا کہتی ہے؟

دوسری جانب تربت میونسپل کارپوریشن میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی سربراہی میں نیشنل پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق پارٹی نے 52 میں سے 29 نشستیں حاصل کیں، یہاں پی این پی اور بی این پی-مینگل کو بالترتیب 5 اور 3 نشستیں مل سکیں جبکہ آزاد امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی۔

حکمران بی اے پی کا ٹکٹ اس کے گڑھ ضلع چاغی میں بلدیاتی انتخابات میں نظر نہیں آسکا کیونکہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے گروپ اور ایم این اے میر محمد عارف محمد حسنی کے حامیوں نے کئی یونین کونسلوں میں ایک دوسرے کے خلاف آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا۔

سنجرانی گروپ کے حامیوں نے خان سنجرانی پینل کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کے لیے بکرے کا انتخاب کیا اور حسنی گروپ نے الفتح پینل کی چھتری تلے الیکشن لڑنے والوں نے اپنا انتخابی نشان خرگوش کے طور پر منتخب کیا۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق الفتح پینل نے کم از کم 6 یونین کونسلوں میں جنرل کونسلر کی اکثریت حاصل کی جبکہ سنجرانی پینل نے کم از کم 3 یونین کونسلوں میں اکثریت حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: 32 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کیلئے ووٹنگ مکمل، ووٹوں کی گنتی جاری

جے یو آئی-ایف کا حصہ ایک اور سیاسی اتحاد بابائے چاغی پینل نے میونسپل کمیٹی دالبندین میں 8 میں سے 5 نشستیں جیتنے کے علاوہ یونین کونسلوں میں کم از کم 3 نشستوں پر اکثریت حاصل کی۔

ذرائع نے بتایا کہ مرکزی اور مقامی سطح پر بی اے پی میں اختلافات نے دونوں گروپوں کو اپنے مقامی سیاسی پلیٹ فارم کے تحت بلدیاتی انتخابات لڑنے پر مجبور کیا۔

صوبے کے 32 اضلاع کے 6 ہزار 259 وارڈز پر 23 ہزار 835 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، تاہم ایک ہزار 584 امیدوار پہلے ہی جنرل نشستوں پر بلامقابلہ منتخب ہوچکے تھے اور بقیہ 4 ہزار 456 وارڈز پر پولنگ کرائی گئی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبے کے 34 میں سے 32 اضلاع میں انتخابات کے لیے 5 ہزار 226 پولنگ اسٹیشنز بنائے، جن میں مردوں کے لیے 576، خواتین کے لیے 562 اور 4 ہزار 88 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز شامل ہیں۔

باقی دو اضلاع کوئٹہ اور لسبیلہ میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے حلقوں کی تعداد میں اضافے کے بعد وہاں حلقہ بندیوں کا عمل جاری ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن کے دوران ڈنڈے اور گولیاں چل گئیں

بلوچستان کے چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی نے کہا کہ انتخابات پرامن، آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقے سے ہوئے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ 60 فیصد رہا جو 1988 کے انتخابات کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

پُرتشدد واقعات

بلدیاتی انتخابات کے دوران دن بڑی حد تک پرامن رہا، تاہم تشدد کی کچھ اطلاعات سامنے آئیں۔

سرکاری ذرائع نے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں کم از کم ایک شخص کی ہلاکت اور 30 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔

مقامی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے کی شناخت محمد انور کے نام سے ہوئی ہے جو ضلع چاغی کے علاقے پڑگ میں پولنگ اسٹیشن کے سامنے دو حریف گروپوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہوا اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کوئٹہ ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہونے پر ووٹنگ کچھ دیر کے لیے روک دی گئی تاہم بعد میں اسے قابو کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ

ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر یاسر دشتی نے ڈان کو بتایا کہ مقامی انتظامیہ واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

دریں اثنا حکمران بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی میر محمد عارف محمد حسنی نے الزام لگایا کہ اس قتل کے پیچھے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ان کے بھائیوں کا ہاتھ ہے۔

اپنے ایک بیان میں میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ مقتول انور ان کا کارکن تھا اور مبینہ طور پر لیویز فورس کے سپاہی نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

دریں اثنا ضلع بارکھان کے تین وارڈز میں حریف گروپوں میں تصادم کے باعث پولنگ نہ ہو سکی، سبی اور جعفر آباد کے علاقوں میں بھی جھڑپیں ہوئیں جن میں متعدد افراد زخمی ہوئے جنہیں ڈیرہ اللہ یار اور اوستہ محمد کے ضلعی ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

تاہم خضدار، قلات، مستونگ، گوادر، پنجگور، تربت، نوشکی، جھل مگسی، ڈیرہ بگٹی، لورالائی، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، پشین، ژوب، شیرانی، بولان، دالبندین، نصیر آباد، خاران، آواران اور واشک میں تشدد کا کوئی بڑا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں