کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا

اپ ڈیٹ 05 جون 2022
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: ٹوئٹر

گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ملیر سے لاپتا ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا ہے۔

دعا زہرہ کو کراچی اور پنجاب پولیس کے مشترکہ آپریشن کے بعد بہاولنگر سے بازیاب کرایا گیا، ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے دعا زہرہ کے شوہر کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق دعا زہرہ اور ظہیر احمد دونوں کو قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد کراچی لایا جائے گا۔

خیال رہے کہ عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس نے دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے وزارت داخلہ سے مدد مانگی تھی جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کی لاہور سے ’ملنے‘ کی خبر پر لوگوں کے تبصرے

30 مئی کو کراچی سے لاپتا ہوکر صوبے سے باہر پہنچنے والی دعا زہرہ کی والدہ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران لڑکی کی بازیابی میں ناکامی پر عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ صوبے کی پولیس اتنی نااہل ہوچکی ہے، عدالت 21 دن سے احکامات جاری کر رہی ہے لیکن بچی کو بازیاب نہیں کروایا گیا، پولیس بچی کو بازیاب نہیں کروائے گی تو کون بچی کو بازیاب کروائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے آخری موقع دیا تھا لیکن بچی بازیاب نہیں ہوئی ہے، ہم آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے، اگر بچی کو 10 جون تک پیش کردیا گیا تو شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں عدالت نے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت جاری کی تھی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کے طبی معائنے کیلئے دائر پولیس کی درخواست مسترد

دعا زہرہ کیس

خیال رہے کہ 16 اپریل کو کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 14 سالہ لڑکی دعا زہرہ لاپتا ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے، تاہم پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعا زہرہ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفیصلی رپورٹ طلب کی تھی۔

دعا زہرہ لاپتا کیس کے باعث سندھ حکومت کو سخت تنقید کا سامنا تھا اور مختلف حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔

مزید پڑھیں: ’کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو اوکاڑہ سے تلاش کرلیا گیا‘

تاہم 25 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی تھی کہ دعا زہرہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے، وہ خیریت سے ہیں۔

26 اپریل کو پنجاب پولیس کو دعا زہرہ اوکاڑہ سے مل گئی تھیں، جس کے بعد انہیں لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا تھا کہ دعا زہرہ نے ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔

مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو دارالامان بھیجنے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آزاد شہری قرار دیا تھا۔

علاوہ ازیں دعا زہرہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے والد کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

ضلع کچہری لاہور میں دعا زہرہ نے اپنے والد اور کزن کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جس میں انہوں نے اپنی مبینہ پسند کی شادی کے بعد والد پر لاہور میں واقع گھر میں گھسنے اور انہیں اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مجسٹریٹ نے والد کے خلاف شواہد پیش کرنے کے لیے دعا زہرہ کو 18 مئی کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں