کراچی: نجی سپر اسٹور میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا، عمارت کے مکین تاحال بے گھر

اپ ڈیٹ 05 جون 2022
عاصمہ بتول نے بتایا کہ سپر اسٹور مکمل طور پر تباہ ہو گیا —فوٹو: مرتضیٰ وہاب / ٹوئٹر
عاصمہ بتول نے بتایا کہ سپر اسٹور مکمل طور پر تباہ ہو گیا —فوٹو: مرتضیٰ وہاب / ٹوئٹر

کراچی کے علاقے جیل چورنگی پر نجی سپر اسٹور کے تہہ خانے میں غیر قانونی طور پر بنائے گئے گودام میں بھڑکنے والی آگ پر بالآخر گزشتہ شب قابو پالیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد عاصمہ بتول نے بتایا کہ آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا ہے، کولنگ کا عمل جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ فائر فائٹرز تہہ خانے میں داخل ہو چکے ہیں اور کولنگ کے عمل میں شامل ہیں، تاہم وہاں سے ہلکا دھواں اب بھی نکل رہا ہے، سپر اسٹور مکمل طور پر تباہ ہوگیا جبکہ میزانائن اور گراؤنڈ فلورز بُری طرح متاثر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: نجی سپر اسٹور میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا، کولنگ کا عمل جاری

ان کا کہنا تھا کہ پارکنگ کی 2 منازل سے 12 کاریں اور 38 موٹر سائیکلیں بحفاظت ہٹا دی گئیں جبکہ کچھ گاڑیاں اب بھی وہاں موجود ہیں لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، انہوں نے جمعہ کی آدھی رات کو آگ دوبارہ بھڑکنے کی تصدیق کی، آگ بجھانے کے لیے اسٹور کے پیچھے ایک نجی یونیورسٹی کے قریب تہہ خانے کی دیوار توڑ دی گئی۔

عاصمہ بتول نے کہا کہ ایس بی سی اے کی ایک ٹیم عمارت کا معائنہ کرے گی اور فیصلہ کرے گی کہ یہ رہنے کے قابل رہی ہے یا نہیں۔

عمارت کے مکین پریشان

شام کو جائے وقوع کا دورہ کرنے سے معلوم ہوا کہ جیل چورنگی فلائی اوور کے نیچے لگائے گئے خیمے میں عمارت کے مکین خواتین سمیت اب تک موجود ہیں جبکہ ڈی ایچ او ایسٹ اور پی ڈی ایم اے نے ابتدائی طبی امدادی کیمپ کا انتظام کیا۔

عمارت کی یونین کے عہدیدار ندیم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے ایلومینیم سے بنی ٹرالی دکھائی جو پگھلی نہیں تھی اور حیرت کا اظہار کیا کہ عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی لوہے کی سلاخیں آگ میں کیسے پگھل گئیں؟

مزید پڑھیں: تین روز کے وقفے سے کراچی کی ایک اور بڑی مارکیٹ میں آتشزدگی

انہوں نے عمارت کے ڈھانچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دینے سے پہلے اس کا صحیح جائزہ لینے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ مناسب تشخیص کے علاوہ رہائشیوں نے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے، 173 فلیٹس ہیں اور ہر فلیٹ کی مالیت 3 سے 4 کروڑ روپے کے درمیان ہے جن میں 2 یا 3 بیڈرومز ہیں جبکہ 6 کروڑ روپے کے 4 پینٹ ہاؤسز ہیں۔

عمارت کو خطرناک قرار دینے کی صورت میں 7 سے 8 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ 20 لاکھ روپے مالیت کا الیکٹرک پینل اور 15 لاکھ روپے مالیت کا ریسیپشن/ایڈمن آفس بھی جل گیا جبکہ 5 لفٹوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔

مزید برآں متاثرہ رہائشی کرائے کی جگہوں پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور وہ تاحال اس بات سے ناواقف ہیں کہ انہیں وہاں مزید کب تک رہنا پڑے گا۔

شاپنگ مالز، کمرشل عمارتوں کے معائنے کا حکم

کمشنر کراچی محمد اقبال میمن نے متعلقہ حکام کو تمام شاپنگ مالز، کمرشل اور بلند و بالا عمارتوں کا معائنہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں آتشزدگی کے واقعات کی روک تھام کیسے ہو؟

انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سول ڈیفنس، تمام ڈپٹی کمشنرز اور کنٹونمنٹ بورڈز کو ہدایت جاری کی کہ فوری طور پر ان عمارتوں کا معائنہ شروع کریں جہاں اسٹورز، ریسٹورنٹس وغیرہ چلائے جارہے ہیں جن میں منظور شدہ بلڈنگ پلان کے خلاف ورزی کرتے ہوئے گودام موجود ہو سکتے ہیں۔

جامعہ کراچی کے طالب علم کی موت

فائر ڈپارٹمنٹ کے افسر عبدالاحد نے بتایا کہ آگ لگنے کے پہلے روز وہ آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے جب 2 سے 3 گھنٹے بعد انہیں اطلاع ملی کہ اسٹور کا ایک ملازم واسع صدیقی عمارت کے اندر موجود ہے جو کہ جامعہ کراچی کا طالبعلم تھا۔

انہوں نے بتایا کہ واسع صدیقی اپنے سیل فون کے ذریعے اسٹور کے ساتھیوں سے رابطے میں تھا، جب وہ دیوار توڑ کر پہلی منزل پر گئے اس وقت اسٹور کا ایک ملازم بھی واسع کے ساتھ موجود تھا لیکن وہ مقتول کی موجودگی سے متعلق درست جگہ کی نشاندہی نہیں کرسکا، انہوں نے 3 بار اس جگہ کی تلاشی لی اور چوتھی کوشش پر واسع کو وہاں بے ہوش پایا۔

مزید پڑھیں: کراچی: نجی سپر اسٹور میں آگ لگنے سے ایک شخص جاں بحق

عبدالاحد نے بتایا کہ ’میں نے اس کے سینے کو دبانا شروع کیا، وہ زندہ تھا لیکن دھوئیں میں سانس لینے کی وجہ سے بے ہوش تھا’۔

وہ اسے اسنارکل میں لے گئے اور ہسپتال منتقل کیا تاہم بعد ازاں واسع صدیقی کی موت واقع ہوگئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں