بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق توہین آمیز ریمارکس، مسلم دنیا میں غم و غصے کی لہر

اپ ڈیٹ 06 جون 2022
قطر نے اسلاموفوبک خیالات پر بھارت سے عوامی سطح پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے — فوٹو: ٹوئٹر
قطر نے اسلاموفوبک خیالات پر بھارت سے عوامی سطح پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے — فوٹو: ٹوئٹر

مسلم ممالک نے بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز ریمارکس پر سخت ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جبکہ قطر، کویت اور ایران نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

قطر نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ایسے 'اسلاموفوبک' خیالات کے اظہار کی اجازت دینے پر بھارت سے عوامی سطح پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب کویت نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اس نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے سرکاری احتجاجی مراسلہ تھمایا ہے جس میں بھارت کی حکمراں جماعت کے ایک عہدیدار کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دیے گئے توہین آمیز بیانات کو ریاست کویت کی جانب سے سختی سے مسترد کیا گیا اور شدید مذمت کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کچھ اعلیٰ بھارتی سرکاری عہدیدار اقلیتوں پر حملوں کی حمایت کر رہے ہیں، امریکا

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی بی جے پی رہنما کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے، بھارت کی سرزنش اور مذمت کرے۔

اپنے بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے بارہا کہا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت مذہبی آزادیوں کو پامال کر رہا ہے اور مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے، دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کی سخت سرزنش کرنی چاہیے۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم نے مزید کہا کہ مسلمانوں کی نبی کریم ﷺ سے محبت سب سے زیادہ ہے اور وہ حضور ﷺ کے لیے جان بھی قربان کر سکتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما اور پارٹی کے ایک اور رہنما نوین کمار جندال نے پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے، ان ریمارکس کی دنیا بھر میں مذمت کے بعد بھارت کی حکمراں جماعت کو ان کے بیانات سے خود کو الگ کرنا پڑا اور ان دونوں رہنماؤں کے خلاف تادیبی کارروائی کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکی نگرانی میں اضافہ ہوا ہے‘

قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے بعد قطر نے بھارت سفیر کو طلب کر کے اسے سرکاری احتجاجی مراسلے تھمایا جس میں قطر کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا اور بھارت کی حکمراں جماعت کے ایک عہدیدار کی جانب سے پیغمبر اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ادا کیے گئے متنازع ریمارکس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی گئی۔

قطر نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بھارتی حکومت کی جانب سے ان ریمارکس کی عوامی سطح پر معافی اور فوری مذمت کی توقع رکھتا ہے۔

قطر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس طرح کے اسلام مخالف ریمارکس کو بغیر سزا کے جاری رکھنے کی اجازت دینا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بڑا خطرہ ہے، یہ مزید نفرت، تعصب اور ایک طبقے کے استحصال کا باعث بن سکتا ہے جس سے تشدد اور نفرت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد بن حمد الخلیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کی حکمراں جماعت کی ترجمان کا 'غلیظ، توہین آمیز' بیان ہر مسلمان کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ممبئی میں مساجد کو اذان کی آواز کم کرنے پر مجبور کردیا گیا

بھارت نے قطر اور کویت دونوں ممالک کو بتایا ہے کہ جارحانہ خیالات بھارتی حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے جبکہ توہین آمیز ریمارکس کے ذمہ داروں کے خلاف 'سخت کارروائی' کی گئی ہے۔

بی جے پی نے رہنماؤں کی پارٹی رکنیت معطل کردی

ہندوستان ٹائمز کے مطابق مسلم ممالک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد حکمراں بی جے پی نے نوپور شرما کو معطل کردیا جبکہ نوین جندال کو ان کے ریمارکس پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

پارٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کسی رہنما کا نام نہیں لیا گیا لیکن بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پارٹی کسی مذہب کی توہین کو برداشت نہیں کرتی اور تمام مذاہب و عقائد کا احترام کرتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کسی ایسے نظریے کے بھی خلاف ہے جو کسی فرقے یا مذہب کی توہین یا تذلیل کرتا ہو، بی جے پی ایسے لوگوں یا ایسے فلسفے کی تشہیر نہیں کرتی، بھارت کی ہزاروں سال کی تاریخ کے دوران ہر مذہب یہاں پھلا پھولا اور اس نے ترقی کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jun 06, 2022 02:06am
بی جے پی نے جو مذاہب کے بارے میں بیان دیا ہے تو کیا اسے بی جے پی کا یو ٹرن سمجھا جائے۔ اییک بات اور یہ بیان اس خوف سے ہے کہ ساری تجارت متاثر ہوگی، اور اس لیے نہیں ہے کہ انہیں دوسرے مذاہب سے کوئی بیر نہیں ہے۔