پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا نیب افسران، ان کے رشتہ داروں کے اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 07 جون 2022
نور عالم کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین نیب کی گردن میں سریا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی
نور عالم کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین نیب کی گردن میں سریا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی

کابینہ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے نیب افسران، ان کے بچوں اور رشتہ داروں کے اثاثے ڈیکلئیر کرنے کا حکم دیتے ہوئے ادارے کے اکاؤنٹس کا بھی آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا۔

چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ بھی پیش ہوئے۔

دوران اجلاس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایڈن ہاؤسنگ اسکیم سے پلی بارگین کی تفصیلات طلب کیں، جس پر قائم مقام چیئرمین نیب نے بتایا کہ ایڈن ہاؤسنگ اسکیم سے پلی بارگین کی منظوری گزشتہ روز عدالت سے لی گئی تھی۔

سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ نیب کا دعویٰ ہے کہ اب تک 8 کھرب 20 ارب روپے کی ریکوریاں کی گئیں، وزارت خزانہ کے مطابق اب تک صرف 15 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی اے سی کے حکم کے باوجود ایف آئی اے کی اراضی سے متعلق تحقیقات جاری

چیئرمین کمیٹی نور عالم نے کہا کہ جو رقم نیب کے پاس آئے گی اس کا آڈٹ ضرور کیا جائے گا، نیب جو بھی وصولیاں کرتا ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہونی چاہئیں، جو ادارہ حکومت کا ایک پیسہ بھی لے گا اس کا آڈٹ ضرور ہوگا۔

قائم مقام چیئرمین نے شرکا کو بتایا کہ نیب ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، نیب کا ایک ہی اکاؤنٹ ہے جس میں تمام وصولیوں کی رقم رکھی جاتی ہے۔

کمیٹی نے نیب وصولیوں اور رقوم کی تقسیم کا مکمل آڈٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے بینک اکاؤنٹ کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔

نیب کی کارروائیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقوم کی تفصیلات بتاتے ہوئے نیب کے چیئرمین ظاہر شاہ نے کہا کہ کراچی بحریہ ٹاؤن میں اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اسپانسرز کو پہنچایا گیا، نیب نے سپریم کورٹ کے توسط سے بحریہ ٹاؤن سے اربوں روپے برآمد کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سکھر سے نیب نے کروڑوں روپے کی چوری شدہ گندم برآمد کی، کچھ وصولیاں بلاواسطہ کچھ بالواسطہ ہوتی ہیں، آڈیٹر جنرل جب بھی نیب کے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرنا چاہے کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب کا اپنے چیئرمین کی پی اے سی اجلاس میں شرکت پر یوٹرن

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے نیب قوانین میں تبدیلی پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ نیب قانون میں جو تبدیلیاں کی جارہی ہیں، ان کے بعد نیب کی حیثیت کیا ہوگی۔

شبلی فراز نے کہا کہ کیا نیب آزادانہ طور پر کام کر سکے گا جس پر چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب نے صرف قانون پر عمل کرنا ہے، قانون سازی پر سوال اٹھانے کا نیب کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے شبلی فراز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پر بات کرنی ہے تو سینیٹ یا قومی اسمبلی میں کریں، اداروں کا کام کرپشن کو روکنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو حکومت میں نہیں رہا اس سے سیاسی انتقام لیا جائے۔

دوران اجلاس پی اے سی نے نیب افسران کی تنخواہوں، مراعات اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے نیب افسران، ان کے بچوں، بہن بھائیوں، والدین کے اثاثے ڈیکلئیر کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب پی اے سی میں پیش، ریکوری، زیرالتوا کیسز کی تفصیلات طلب

اس موقع پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کو ہدایت دی کہ جو سوالنامہ آپ دیگر ملزمان کو بھجواتے ہیں وہی اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو بھی بھیجیں۔

نور عالم کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین نیب کی گردن میں سریا تھا، قائم مقام چیئرمین شریف آدمی لگتے ہیں۔

انہوں نے نیب کی انکوائریز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص پر الزام ثابت نہیں ہوتا کیا کبھی آپ نے خط لکھ کر اس سے معافی مانگی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف نیب میں کیس ابھی تک چل رہا ہے تو مجھے بتائیں تو میں پی اے سی کے آج کے اجلاس کی صدارت سے ہٹ جاتا ہوں۔

قائم مقام چیئرمین نیب نے کہا کہ مجھے زبانی یاد نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی تک آپ کے خلاف انکوائری بند نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے کی تحقیقات کا حکم

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ بتائیں میرے خلاف کیس کہاں تک پہنچا ہے؟ اگر میری زمین 200 ایکڑ سے 230 ایکڑ ہوگئی ہے تو وہ بھی بتائیے گا، اگر 200 ایکڑ سے کم ہوکر 150 ایکڑ تک پہنچی ہے تو وہ بھی بتائیے گا۔

نور عالم خان نے کہا کہ میرے کم ہونے والے 50 ایکڑ کا حساب بھی نیب پورا کرکے دے۔

چیئرمین کمیٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ سر، اگر آپ بے قصور نکلے تو آپ کو معذرت کا خط ضرور لکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ جو بھی شخص بے قصور ہوگا تو ان سب کو بھی معذرت کا لیٹر لکھیں گے۔

شبلی فراز نے کہا کہ اگر چیئرمین پی اے سی کے خلاف کیس بند نہیں ہوا تو چیئرمین کو آج کے اجلاس کی صدارت سے اخلاقی طور پر الگ ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس میں پیش ہونے سے روک دیا

چیئرمین پی اے سی نے پی ٹی آئی کے رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شبلی صاحب! نیب آپ کے خلاف فائل رکھ دیتا ہے تاکہ آپ کو بے عزت کر سکے۔

پی اے سی نے ایک ماہ بعد 7 جولائی کو احکامات پر عملدرآمد کے رکارڈ سمیت نیب حکام کو دوبارہ طلب کرلیا۔

چیئرمین پی اے سی، ڈی جی نیب سندھ کے درمیان تلخ کلامی

اجلاس کے دوران چیئرمین نور عالم خان اور ڈی جی نیب سندھ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

ڈی جی نیب نے کہا کہ آپ نے نیب حکام کے لیے جو سوالنامہ بھرنے کا حکم دیا ہے وہ تو ملزمان کے لیے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر تو آپ پرفارما بھروانے سے پہلے نیب کے سارے افسران کو ملزم ڈکلیئر کردیں۔

چیئرمین پی اے سی نے جواب میں کہا کہ اچھا تو آپ کو اثاثے ڈیکلیئر کرانے کے حکم پر تکلیف ہو رہی ہے؟ اگر نیب ہمارا احتساب کر سکتا ہے تو پھر نیب کے افسران کو بھی جواب دینا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں