ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ، 205 روپے کی حد عبور کر گیا

اپ ڈیٹ 14 جون 2022
روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے پیکج کا اب تک بحال نہ ہونا اور ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے پیکج کا اب تک بحال نہ ہونا اور ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور امریکی ڈالر منگل کو 205 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

ماہرین اور تجزیہ کار ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کی وجہ بین الاقوامی منڈی میں ڈالر کی قدر میں اضافے کو قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے پیکج کا اب تک بحال نہ ہونا اور گرتے ہوئے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوگا تو قرض دہندہ اداروں سے ایک پیسہ نہیں ملے گا، مفتاح اسمٰعیل

ڈان کی ایک رپورٹ میں واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چین اور دیگر اتحادی پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے باضابطہ اعلان کیے جانے تک غیر یقینی کی صورتحال گھیرے میں لیے رکھے گی۔

دریں اثنا کرنسی ڈیلرز نے شکایت کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں نئی ​​مخلوط حکومت کو اقتدار میں آئے دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ کہیں سے بھی ڈالر کی آمد کو محفوظ بنانے سے قاصر ہے، جس سے قیاس آرائی کرنے والی قوتوں کے لیے زر تبادلہ کی شرح میں ہیرا پھیری کے نادر مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی مانگ اب بھی زیادہ ہے لیکن اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ جائز نہیں ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی

بینکرز کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کے کمزور ہونے کی اہم وجہ ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ریکارڈ ترسیلات زر اور برآمدات میں شاندار نمو کے باوجود بڑھتی ہوئی درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑے خسارے کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے۔

اپریل میں نئی حکومت آنے کے بعد سے پیر (13 جون) تک ڈالر کی قیمت میں 21 روپے کا اضافہ ہوا اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو ممکنہ طور پر اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

مزید پڑھیں: بجٹ کے بعد ڈالر 204 روپے کی تاریخی بلندی پر، اسٹاک مارکیٹ میں بھی 1100 پوائنٹس سے زائد کی کمی

دریں اثنا آج ڈان کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ مقامی کرنسی کو بچانے کے لیے بجٹ میں کوئی حکمت عملی لانے میں ناکام رہے ہیں، ڈالر کی قدر میں اضافے نے نہ صرف درآمدی اشیا اور خدمات کی قیمتیں مہنگی کردی ہیں بلکہ معیشت میں افراط زر بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق امریکی ڈالر گزشتہ روز 203.90 روپے پر بند ہونے کے بعد صبح ساڑھے 10 بجے کے قریب 1.70 روپے اضافے کے بعد 205.50 روپے تک پہنچ گیا، فاریکس ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز کا ریٹ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے تھوڑا سا مختلف ہے جس نے گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 203.86 روپے ظاہر کی تھی۔

ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور کا خیال ہے کہ عالمی منڈیوں کے رجحانات کی وجہ سے روپیہ گراوٹ کا شکار ہے جہاں بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ڈالر آج 20 سال کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے اور اس کے مقابلے میں باقی تمام چیزوں کو نقصان پہنچا ہے۔

کومل منصور نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ عالمی منڈی میں مقدار کی بنیاد پر قدر بڑھنے اور اور ڈالر کی مضبوطی دراصل عالمی منڈی میں قدر بڑھنے کے اصل محرکات ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ جاپان کا ین 24 سال کی کم ترین سطح پر ہے اور دیگر بڑی اور علاقائی کرنسیاں بھی کئی سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معیشت کو سہارا دینے کیلئے لاٹری اسکیم کی تجویز زیر غور

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہی چیز مقامی تاجروں کے ذہنوں میں چل رہی ہے۔

ویب پر مبنی مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے رکے ہوئے پروگرام کو روپے کی گراوٹ میں اہم وجہ قرار دیا کیونکہ مقامی کرنسی مارکیٹ کو ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔

آئی ایم ایف کی قرض کی سہولت اپریل کے اوائل سے ہی تعطل کا شکار ہے کیونکہ بین الاقوامی قرض دہندہ کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ رہے، آئی ایم ایف نے پہلے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایندھن اور توانائی کی سبسڈی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اب نئی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ اہداف پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے ایک روز قبل رائٹرز کو بتایا تھا کہ پاکستان کے سال 23-2022 کے بجٹ کو آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے پروگرام کے کلیدی مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔

سعد بن نصیر نے کہا کہ روپیہ دباؤ کا شکار ہے کیونکہ حکومت نے مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے تھے وہ آئی ایم ایف کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں، بجٹ اقدامات نے آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے پر غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، قطری ایل این جی کی مؤخر ادائیگیوں کا منصوبہ حاصل کرے گا، مفتاح اسمٰعیل

انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع نہیں کر پاتی، روپے پر دباؤ برقرار رہے گا۔

مزید برآں انہوں نے مزید کہا کہ چین سے آنے والی امداد بھی غیر یقینی ہے جہاں پاکستان 2.3 ارب ڈالر کی رقم کے رول اوور کا منتظر ہے۔

ساتھ ہی روپیہ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے پیش نظر بھی اپنی قدر کھو رہا ہے جہاں اس اجلاس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

پاکستان جون 2018 سے انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت اور انسداد منی لانڈرنگ نظاموں میں خامیوں کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔

امریکی سفیر کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا دورہ

پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا اور روایتی گھنٹہ بجا کر کاروبار کا آغاز کیا۔

ڈونلڈ بروم نے اسٹاک مارکیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج اسٹاک مارکیٹ میں آیا ہوں، کراچی کا میرا پہلا دورہ ہے اور یہاں آکر بہت اچھا محسوس ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال امریکا پاکستان کے 75 سالہ تعلقات کا دور مکمل ہورہا ہے اور ان تعلقات آگے بڑھانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹاک ایکسچینج میں امریکی سرمایہ کاری کو سراہتے ہیں، چاہتے ہیں زیادہ سے زیادہ امریکی کمپنیاں پاکستان آئیں کیونکہ امریکی کمپنیاں بہترین مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔

ڈونلڈ بروم نے دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔

اس موقع پر چئیرپرسن پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے کہا کہ امریکی سفیر کا یہاں آنا خوش آئند ہے، ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور ملک کو آگے بڑھانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں