دفاعی بجٹ میں کمی آئی، بجٹ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے جو گزشتہ سال 2.8 فیصد تھا، ترجمان پاک فوج

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—فائل فوٹو: جی وی ایس اسکرین گریب
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—فائل فوٹو: جی وی ایس اسکرین گریب

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ مالی سال 23-2022 کے لیے دفاعی بجٹ کی مختص رقم میں مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی جیسے عوامل کی وجہ سے کمی ہوئی ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے جو گزشتہ سال 2.8 فیصد تھا۔

'دنیا' نیوز کے پروگرام 'آن دی فرنٹ' میں اینکر پرسن کامران شاہد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کا چین کا دورہ بہت اہم تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات اسٹرٹیجک اور انتہائی اہم ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ صدر شی جن پنگ سے ملنے والے پہلے آرمی چیف ہیں، چین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا، اس دورے کا مقصد تعلقات کو مضبوط بنانا تھا، چین کےساتھ تعلقات خطےمیں امن کے لیے بہت اہم ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی سیکیورٹی فوج کودی گئی ہے۔

'ہمیشہ دفاعی بجٹ پر بحث شروع ہو جاتی ہے'

انہوں نے کہا کہ چین نے پاکستان کی دفاعی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، سی پیک میں سیکیورٹی سےمتعلق کسی قسم کی کمی نہیں آئی، سی پیک پر کام ہو رہا ہے، حکومتی سطح پر رابطوں میں پیشرفت ہو رہی ہے، دورہ چین کے دوران متعدد میمورنڈم پر دستخط ہوئے، اس دورے کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے، آئی ایس پی آر

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا جب بھی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو ہمیشہ دفاعی بجٹ پر بحث شروع ہوتی ہے، دفاعی بجٹ خطرے کی صورتحال، چیلنجز، تعیناتی کی نوعیت اور وسائل کو دیکھتے ہوئے رکھا جاتا ہے، بجٹ میں محدود وسائل کو مد نظر رکھا جاتا ہے، ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے تمام ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا اس کے برعکس آپ بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ دیکھ لیں، بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے جب کہ پاک فوج یوٹیلیٹی کی مد میں اخراجات کو کم کر رہی ہے، دشمن کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے، ہمارا ماضی بھی بتاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ وہاں سے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت بھارت کی 13 لاکھ فوج ہے جبکہ ہماری فوج ساڑھے پانچ لاکھ ہے، اس وقت 50 فیصد فوج مشرقی سرحد جبکہ 40 فیصد مغربی سرحد پر تعینات ہے، باقی فوج کنٹونمنٹ اور کبھی داخلی سلامتی پر اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ قدرتی آفات میں مصروف رہتی ہے۔

2020 سے پاکستانی افواج نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، مہنگائی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کم ہوا ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے شرح سے دیکھیں تو نیچے جا رہا ہے، اس کے باوجود ہم نے اپنی حربی صلاحیتوں میں کمی نہیں آنے دی، اس وقت ہم نے دفاعی بجٹ 100 ارب روپے کم کیا ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فوج اور سوسائٹی ’میں تقسیم سے متعلق پروپیگنڈا مہم کا نوٹس

میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ آرمی چیف نے ہدایت دی ہے مشقوں کو بڑے پیمانوں کے بجائے چھوٹے پیمانے پر کر لیا جائے، چھوٹی مشقوں سے بچت ہو گی، ہم نے اپنی غیر ضروری نقل و حرکت کم کر دی گئی ہے، افواج میں یوٹیلٹی بلز، ڈیزل، پٹرول کی مد میں بچت کی جا رہی ہے۔

'فوجی فاؤنڈیشن نے 150 ارب، آرمی ویلیفئر ٹرسٹ نے 2.2 ارب خزانے میں جمع کروائے'

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی ہدایت پر ایک دن ڈرائی ڈے رکھا گیا ہے جب کہ کانفرنس کو آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے مزید بتایا کہ گزشتہ سال کورونا کی مد میں جو رقم ملی تھی اس میں سے 6 ارب بچا کر واپس کردیے گئے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ عسکری سازو سامان کی مد میں ملنے والے ساڑھے 3 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروا دیئے ہیں۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ہمارے ادارے فوجی فاؤنڈیشن نے گزشتہ سال 150 ارب روپے ٹیکس جمع کروایا جب کہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نے 2.2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے، مزید یہ کہ فوجی فاؤنڈیشن کے تحت سالانہ 20 لاکھ لوگ صحت کی سہولیات حاصل کر رہے ہیں جب کہ اس ادارے کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں 70 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

'ادارے کا مؤقف ہے پرویز مشرف کو واپس آجانا چاہیے'

ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) پرویزمشرف کی صحت بہت خراب ہے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے، ایسی صورتحال میں پرویزمشرف کی فیملی سے رابطہ کیا گیا ہے, اس صورتحال میں ادارے اور اس کی لیڈرشپ کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کو واپس آجانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: امریکا کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، روس کو یوکرین پر حملے فوری روکنے چاہئیں، آرمی چیف

انہوں نے کہا کہ اسی حوالے سے پرویز مشرف کی فیملی سے رابطہ کیا گیا، پرویز مشرف کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی اور ان کے ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ وہ ان کو ایسی کنڈیشن میں سفر کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں یا نہیں، اگریہ دونوں چیزیں سامنے آجاتی ہیں تو اس کے بعد ہی کوئی انتظامات کیےجاسکتے ہیں، ادارہ محسوس کرتاہے کہ جنرل مشرف کو اگر ہم پاکستان واپس لاسکیں کیوں کہ ان کی کنڈیشن ایسی ہے۔

'بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے لابنگ کی'

انہوں نے کہا فیٹف کے اجلاس پر تبصرہ نہیں کروں گا، اس حوالے سے ایک مکمل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، سارا میکنزم آرمی چیف کی نگرانی میں بنایا گیا، ڈی جی ایم او کے تحت ایک سیل بنایا گیا، اس سیل نے 30 سے زائد محکموں اور وزارتوں کے درمیان رابطے کا نظام بنایا، ایک ایکشن پلان بنا کر اس پر عمل در آمد کرایا.

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور دہشت گروں کی مالی معاونت کے حوالے سے مؤثر لائحہ عمل بنا کر دیا جس پر عمل کرکے پاکستان نے 26 نکات پر عمل کیا، ان اقدامات سے پاکستان کی ترسیلات زر میں تاریخی اضافہ ہوا، منی لانڈرنگ کے لیے بنائے گئے مؤثر قوانین کے باعث پاکستان نے 58 ارب روپے ریکور کیے، یہ تمام اقدامات آرمی چیف کی نگرانی کیے گئے جس کے باعث کم سے کم وقت میں ہم ان چیزوں پر عمل در آمد کرنے کے قابل ہوئے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا بھارت کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے بہت لابنگ کی گئی جس حوالےسے انہوں نے اعلانیہ بیانات بھی دیے۔

'این ایس سی میٹنگ میں بتایا گیا کہ سازش کے شواہد نہیں'

ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج اور قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہےایسا نہیں ہونا چاہیے، حقائق مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں، اپنی رائے کا سب کو حق حاصل ہے لیکن جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے، شیخ رشید نے کہا قومی سلامتی اجلاس میں کسی نے نہیں کہا سازش نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی باتیں من گھڑت اور قیاس آرائیاں ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے شرکا کو واضح اور مفصل انداز میں بتایا گیاکہ کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا، ایسا کچھ نہیں ہوا، ہماری ایجنسیوں کا 24 گھنٹے کا کام دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تینوں سروسز چیفس موجود تھے، اجلاس کے شرکا کو واضح انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ ایجنسیوں نے تمام چیزوں کو بغور اور پیشہ ورانہ طور پر دیکھا گیا ہے اور اس معاملے میں کسی سازش کے شواہد نہیں ہیں۔

سازش اور مداخلت کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اتنا کہنا چاہوں گا یہ سفارتی لفظ ہے، سفارتی سطح پر سفارتی ابلاغ میں اس طرح کی چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے، مجھے یقین ہے کہ سفارتکار ہی اس کو بہتر طریقے سے واضح کر سکتے ہیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے جو ایکشن لیا گیا وہ سفارتی طور پر لیا گیا ہے، ہماری طرف سے بہت واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں