غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم نہیں ہوئے، اسٹیٹ بینک کی وضاحت

اپ ڈیٹ 22 جون 2022
اسٹیٹ بینک نے افواہوں کی تردید کردی—فائل/فوٹو: ریڈیو پاکستان
اسٹیٹ بینک نے افواہوں کی تردید کردی—فائل/فوٹو: ریڈیو پاکستان

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے دعووں کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ملکی بینکوں میں نہ تو امریکی ڈالر ختم ہو رہے ہیں نہ ہی مرکزی بینک نے درآمدی ادائیگیاں روک دی ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے بیان ان رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ذخائر میں تشویش ناک حد تک کمی آگئی ہے اور درآمدی ادائیگیاں روک دی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف ڈیل میں تاخیر روپے پر بھاری، ڈالر 212 کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا

وضاحتی بیان میں اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ 8.99 ارب ڈالر ہیں اور ‘اس میں سونے کے ذخائر شامل نہیں ہیں اور تمام مقاصد کے لیے قابل استعمال ہیں’۔

بیان میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدی ادائیگیاں نہیں روکی اور کمرشل بینکوں کے پاس مذکورہ ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی مطلوبہ تعداد موجود ہے۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ‘رواں ماہ کے دوران اب تک انٹربینک مارکیٹ کے ذریعے تقریباً 4.7 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی گئی ہیں’۔

قبل ازیں ڈان کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرنسی مارکیٹ غیر یقینی صورتحال اور افواہوں کی لپیٹ میں ہے کہ بینکوں نے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنا بند کر دیے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان عابد قمر نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو درآمدی ادائیگیوں سے نہیں روکا، آج بھی تقریباً 20 کروڑ ڈالر کی درآمدی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ایل سیز کھولنے یا کچھ خاص قسم کی درآمدات جیسے کاروں (سی کے ڈی) سیل فونز اور مخصوص قسم کی مشینری کے لیے معاہدوں کی رجسٹریشن سے قبل اسٹیٹ بینک کی پیشگی منظوری کی ضرورت ہے لیکن یہ ہدایات آج نہیں بلکہ 20 مئی کو جاری کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک ماہ کے دوران بڑا اضافہ

اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے ذخائر مزید 23 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک گر کر 15 ارب ڈالر سے نیچے آگئے ہیں اور ان ذخائر میں مرکزی بینک کا حصہ صرف 9 ارب ڈالر ہے۔

ایک روز قبل ہی پورٹل ٹرسمارک نے بتایا تھا کہ روپیہ کی قدر میں بدترین کمی سے بیرونی زرمبادلہ میں انتہائی کمی واقع ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تقریباً بغیر مفت لیکویڈیٹی کے ساتھ یہ متوقع تھا کہ مرکزی بینک کے پاس مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، کم تر آمد اور خاطر خواہ اخراج کے ساتھ آمدنی، خاص طور پر جون کے آخر میں، اسٹیٹ بینک کمرشل بینک کے ذخائر کے حصے کی ادائیگیوں میں شامل کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں کم یا منفی سویپ پریمیم ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ روپے کی گراوٹ مزید نہیں روکی جارہی ہے اور روپیہ کی قدر روزانہ ایک روپے کی شرح سے گر رہی ہے اور یہ اسی صورت میں رک سکتی ہے جب آمدن حاصل ہوجائے، اگر ہم فرض کر لیں کہ وہ آمدن آئی ایم ایف سے آئے گی تو پھر حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کو آن بورڈ رکھ کر اپنے تمام وسائل پر توجہ دے اور کہے کہ ہم مزید اس طرح ایک ہفتے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

دوسری جانب گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے امید ظاہر کی تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی بحالی کے لیے معاہدہ ایک یا دو روز میں طے ہو جائے گا۔

وزیر خزانہ کی جانب سے یہ امید ظاہر کیے جانے سے قبل ڈان کی ایک رپورٹ میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ امریکا نے پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے لیے مذاکرات میں مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے توسیعی فنڈ پروگرام کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہونے کی حیثیت سے امریکا کا عالمی مالیاتی ادارے کی فیصلہ سازی پر کافی اثر و رسوخ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں