آئی ایم ایف معاہدہ طے پانے میں اب بھی کئی ہفتے باقی ہیں، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 22 جون 2022
شوکت ترین نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایسے معاہدے پر راضی ہو جائے جس کا عوام پر کوئی بوجھ نہ پڑے—فوٹو: ڈان نیوز
شوکت ترین نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایسے معاہدے پر راضی ہو جائے جس کا عوام پر کوئی بوجھ نہ پڑے—فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر خزانہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شوکت ترین نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی بحالی میں اب بھی کئی ہفتے باقی ہیں اور یہ جولائی کے اختتام تک ہی طے پا سکے گا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ’ہم دعا کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جائے کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس ملک کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایسے معاہدے پر راضی ہو جائے جس کا عوام پر کوئی بوجھ نہ پڑے تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس وقت اس معاملے پر کام جاری ہے۔

مزید پڑھیں: شوکت ترین نے بجٹ کو 'انتہائی غیر سنجیدہ' قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے پر کام جاری ہے اور کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ جمعے کو اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کی یادداشت (ایم ای ایف پی) پیش کریں گے لیکن تاحال موصول ہی نہیں ہوئی تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کی یادداشت ایک وسیع اور مفصل دستاویز ہوگی جس پر غور و فکر کیا جائے گا اور ’لائن ٹو لائن‘ بحث کی جائے گی جس کے بعد ایک تیکنیکی معاہدے پر دستخط ہوں گے جو واشنگٹن میں آئی ایم ایف بورڈ کے پاس جائے گا۔

تحریک انصاف کے رہنما نے حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ جولائی کے آخر تک ہی مکمل ہو گا۔

انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم یہ سننا چاہتے ہیں کہ وسیع تر بنیادوں پر یہ معاہدہ طے پایا جائے کیونکہ مالیاتی منڈیوں میں مایوسی ہے اور اس بات کی دلیل کے طور پر بدھ کو ابتدائی طور پر اسٹاک مارکیٹ میں اضافے کے بعد کمی کا حوالہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 10سے12 ہفتوں کے دوران حکومت نے کئی غلط بیانیاں کیں اور اپنا بیانیہ بدلتی رہی جس سے اسٹاک مارکیٹ میں اس کی ساکھ متاثر ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: مشیر خزانہ شوکت ترین خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب

شوکت ترین کی طرف سے ایسا بیان اس وقت آیا جب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان منگل کی رات وفاقی بجٹ 23-2022 پر مفاہمت ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں حکام کی جانب سے 436 ارب روپے مزید ٹیکس پیدا کرنے اور پیٹرولیم لیوی کو بتدریج 50 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے 15 کروڑ آمدن والی کمپنیوں پر ایک فیصد ٹیکس، 20 کروڑ آمدن والی کمپنیوں پر 2 فیصد، 25 کروڑ آمدنی والی کمپنیوں پر 3 فیصد جبکہ 30 کروڑ کی آمدنی والی کمپنیوں پر 4 فیصد غربت کے خاتمے کا ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم، حقیقی بجٹ میں حکومت نے 30 کروڑ سے زائد سالانہ آمدنی والی کمپنیوں پر غربت کے خاتمے کے لیے صرف 2 فیصد ٹیکس لاگو کیا ہے۔

حکومت نے اضافی تنخواہوں اور پنشن کی دفعات کو ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے جس کے لیے 200 ارب روپے الگ سے مختص کیے گئے ہیں مگر اس کے باوجود ہنگامی حالات کے لیے الگ سے فنڈ مختص کیا گیا تھا لیکن یہ سیلاب اور زلزلے جیسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خرچ ہو گا تاکہ رقم کسی دوسرے منصوبے پر خرچ نہ ہو۔

پاکستان نے 152 ارب روپے کا بنیادی بجٹ سرپلس فراہم کرنے کا بھی عہد کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریونیو سے آنے والی رقم سود کی ادائیگیوں کے علاوہ تمام اخراجات کو پورا کرے گی اور اس کے بعد بھی ریونیو سے 152 ارب روپے کا سرپلس قومی خزانے میں جمع ہوگا۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر شوکت ترین سے متعلق لگائے گئے الزامات بے بنیاد پروپیگنڈا ہیں، آئی ایس پی آر

پاکستان سنگین معاشی بحران کی طرف گامزن

پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیر خزانہ نے حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا کہ ملک ’سنگین معاشی بحران‘ کی طرف جا رہا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ حکومتی مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیوں کو مسترد کیا ہے جو کہ ترقی پسند تھیں اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی حامل تھیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت نے پوائنٹ آف سیل مشینوں کے ذریعے خوردہ فروشوں سے مزید ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب حکومت نے خوردہ فروشوں کے لیے ایک مقررہ ٹیکس لاگو کیا ہے کیونکہ یہ ان کا شعبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کس طرح تحریک انصاف نے خوردہ فروشوں کے لیے ایک مخصوص رقم سے زیادہ کی خریداری کے لیے کسی شخص کا شناختی کارڈ طلب کرنا ضروری قرار دیا تھا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت نے یہ شرط بھی ختم کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پرانے پاکستان میں واپس گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی ویلیو ایڈڈ ٹیکس موڈ کی طرف کبھی نہیں بڑھیں گے کیوں کہ حکومت نے خوردہ فروشوں کو بڑے پیمانے پر تحفظ فراہم کیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت حکومت کس طرح ٹیکس کی مد میں 400 ارب سے زائد کی رقم جمع کرے گی۔

شوکت ترین نے مزید کہا کہ یہ لوگ وہی کریں گے جو کچھ انہوں نے ماضی میں کیا ہے اور یہ لوگ ان افراد پر زیادہ ٹیکس لاگو کریں گے جو پہلے ہی بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹر ایوب آفریدی مستعفی، شوکت ترین کے سینیٹر بننے کی راہ ہموار

انہوں نے مخلوط حکومت پر زور دیا کہ وسیع پیمانے پر ٹیکس وصول کرنے کی بنیاد کو مظوط کیا جائے, انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے 4 کروڑ 30 لاکھ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی تھی جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے تھے۔

تحریک انصاف رہنما کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے تک لے جانا جو کہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ مہنگائی 35-40 فیصد تک بڑھے گی جبکہ معاشی ترقی 1-2 فیصد کے درمیان رہے گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ہم ایک سنگین معاشی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں، حکومت ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور پھر دو قدم پیچھے ہوتی ہے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے پیچھے اس حکومت کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے بجائے انتخابی اور احتسابی قوانین کو منسوخ کرنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں