امریکا: سپریم کورٹ کا اسقاط حمل حقوق کے خلاف فیصلہ

اپ ڈیٹ 25 جون 2022
اسقاط حمل کے حامی اور مخالف مظاہرین واشنگٹن میں سپریم کورٹ کے باہر جمع ہیں— فوٹو: اے ایف پی
اسقاط حمل کے حامی اور مخالف مظاہرین واشنگٹن میں سپریم کورٹ کے باہر جمع ہیں— فوٹو: اے ایف پی

امریکی سپریم کورٹ نے مشہور زمانہ روئے بمقابلہ ویڈ کیس کے 1973 کے فیصلے کو غیرمتوقع طور پر کالعدم قرار دے دیا، جس میں اسقاط حمل کو خواتین کا آئینی حق تسلیم کرکے قانونی قرار دیا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس فیصلے کو ری پبلکن اور مذہبی قدامت پسند اپنی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو اسقاط حمل کو محمدود یا اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔

عدالت نے 3-6 کے فیصلے سے میسیپی قانون برقرار رکھا، جس کے تحت 15 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل پر پابندی عائد ہے۔

ججوں نے کہا کہ روئے بمقابلہ ویڈ کے فیصلے میں 24 تا 28 ہفتوں سے قبل تک اسقاط حمل کی اجازت دی گئی تھی جو کہ غلط فیصلہ تھا کیونکہ امریکی آئین میں اسقاط حمل کے حقوق پر کوئی خاص ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: میسوری میں کلینک کو اسقاط حمل سروس جاری رکھنے کا حکم

میسیپی کے قانون پر نچلی عدالتوں نے پابندی لگا دی تھی کہ اسقاط حمل کے حقوق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔

میسیپی میں واحد بچ جانے والے اسقاط حمل کے کلینک جیکسن ویمنز ہیلتھ آرگنائزیشن نے ڈیمو کریٹس کے امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت سے اس قانون کو 2018 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

متذکره قانون کے مطابق اسقاط حمل کی اجازت صرف میڈیکل ایمرجنسی یا مہلک معذوری کی صورت میں دی گئی تھی لیکن اس میں ریپ کی وجہ سے ہونے والے حمل کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

روئے بمقابلہ ویڈ فیصلے میں بتایا گیا کہ امریکی آئین ذاتی رازداری کے تحت خواتین کو اسقاط حمل کا تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے پر کوئی استثنیٰ نہیں دی گئی ہے۔

'پلینڈ پیرنٹ ہڈ آف ساؤتھ ایسٹرن پنسلوانیا بمقابلہ کیسی' کہے جانے والے کیس میں سپریم کورٹ نے 1992میں اسقاط حمل حقوق کی توثیق کی تھی اور کہا تھا کہ اسقاط حمل قوانین کا نفاذ 'غیر ضروری بوجھ' ڈالنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: ریپ اور محرم سے تعلقات نسل بڑھانے میں مددگار ہیں،امریکی رکن پارلیمنٹ

امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹ نے جسٹس سمیوئل الیٹو کے ڈرافٹ کی 2 مئی کو لیک کیے جانے کی مذمت کی تھی اور مجرموں کی شناخت کے لیے تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔

لیک کے بعد جوبائیڈن نے فیصلے کو واپس لینے کی مذمت کی تھی اور کانگریس پر زور دیا تھا کہ ملک بھر میں اسقاط حمل کی رسائی کے لیے قانون منظور کیا جائے۔

اسقاط حمل کے حقوق کے لیے ہزاروں لوگوں نے واشنگٹن اور دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی تھیں۔

ٹیکساس میں ججوں نے 2016 میں اسقاط حمل کے مراکز اور ڈاکٹروں کے خلاف سخت پابندیوں کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔

پول کے مطابق زیادہ تر امریکن اسقاط حمل کے حقوق کے حامی ہیں لیکن روئے فیصلے کو واپس لیا جانا قدامت پسند عیسائی اور اسقاط حمل مخالفوں کا مقصد رہا ہے، جس کے لیے واشنگٹن میں رواں سال جنوری میں مارچ بھی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خاندانی منصوبہ بندی کی کم معلومات، سالانہ 21 لاکھ اسقاطِ حمل

اسقاط حمل حقوق کے حامی گروپ گٹ میچر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق تین برسوں کے دوران امریکا میں اسقاط حمل میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

روئے فیصلے کے 7 سال بعد 1980 میں امریکا میں اسقاط حمل پیک پر تھا جو ایک ہزار حاملہ خواتین میں 29.3 تھا جبکہ 2017 میں یہ ایک ہزار خواتین میں 13.5 تھا جس کے بعد 2020 تک اسقاط حمل بڑھ کر 14.4 فی ہزار خاتون ہو گیا تھا۔

بین الاقوامی سطح پر اسقاط حمل کے حقوق میں اضافہ ہو رہا ہے، اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سال 7.3 کروڑ اسقاط حمل ہوتے ہیں جو تمام حاملہ خواتین کا 29 فیصد بنتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں