روس کا مغرب کی ’جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کیلئے بیلاروس کو جوہری میزائل نظام دینے کا وعدہ

26 جون 2022
روسی ہم منصب سے ملاقات میں بیلاروس کے صدر نے اپنے پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کی جارحانہ اور تصادم آمیز پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا — فوٹو: رائٹرز
روسی ہم منصب سے ملاقات میں بیلاروس کے صدر نے اپنے پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کی جارحانہ اور تصادم آمیز پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا — فوٹو: رائٹرز

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بیلاروس کے ہم منصب کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ماسکو، منسک کو جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل میزائل سسٹم فراہم کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی صدر سے ملاقات میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اپنے پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کی جارحانہ اور تصادم آمیز پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے روسی صدر سے بیلاروس کی سرحدوں کے قریب امریکی زیر قیادت نیٹو اتحاد کی طرف سے جوہری ہتھیاروں سے لیس پروازوں کے خلاف ’مستحکم ردعمل‘ دینے میں بیلاروس کی مدد کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: روس، چین کو سب سے زیادہ تیل فروخت کرنے والا ملک بن گیا

اس پر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کے خیال میں فی الحال متوازن ردعمل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ضرورت پڑی تو بیلاروس کے روسی ساختہ ’ایس یو 25‘ لڑاکا طیاروں کو روسی فیکٹریوں میں اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے۔

روس کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیلاروس کے صدر سے کہا کہ ہم اسکندر-ایم ٹیکٹیکل میزائل سسٹم بیلاروس کو منتقل کریں گے جن کو وہ بیلسٹک اور کروز میزائل دونوں روایتی اور جوہری ورژن میں استعمال کر سکتا ہے۔

اسکندر-ایم، ایک موبائل گائیڈڈ میزائل سسٹم ہے جسے نیٹو نے ’ایس ایس -26 اسٹون‘ کا کوڈ نام دیا ہے، اس میزائل سسٹم نے سوویت یونین کے ’اسکڈ‘ کی جگہ لی تھی اور اس کے دو گائیڈڈ میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر تک ہے اور یہ روایتی یا جوہری وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں۔

دونوں سربراہان کے درمیان ملاقات کے کچھ حصے ٹیلی ویژن پر بھی نشر کیے گئے۔

بیلاروس کے صدر نے اپنے ملک اور اس کے قریبی اتحادی روس کو ایک ہی چتھری قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کو ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیے، یہاں تک کہ بریسٹ سے لے کر ولادی ووستوک تک اپنے آبائی وطن کے دفاع کے لیے سنجیدہ ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

خاص طور پر انہوں نے بیلاروس کے فوجی طیارے کو جوہری صلاحیت کے حامل بنانے کے لیے روس سے مدد طلب کی ہے۔

روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی اس وقت سے بڑھ گئی ہے جب چار ماہ قبل روس نے یوکرین سے جنگ شروع کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ نیٹو نے یوکرین کو تسلیم کرنے اور اسے روس کو دھمکی دینے کے لیے ایک محاذ کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس-یوکرین مذاکرات، چین میں لاک ڈاؤن کے بعد تیل کی قیمتوں میں گراوٹ

روس کے اس اقدام سے نہ صرف اس کو مغربی پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ سویڈن اور روس کے شمالی پڑوسی ملک فن لینڈ کو بھی مغربی ممالک کے اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

گزشتہ ہفتے خاص طور پر لتھوانیا نے روس سے بیلاروس کے راستے روس کے بالٹک ایکسکلیو کیلینن گراڈ تک یورپی پابندیوں کے تحت سامان کی آمد و رفت کو روک کر روس کو مشتعل کیا ہے۔

مزید پڑھیں: یورپی یونین کا روس پر تیل سمیت دیگر نئی پابندیوں کی جانب اہم قدم

روس نے اس عمل کو ’ناکہ بندی‘ قرار دیا ہے، لیکن لتھوانیا نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس عمل سے عام سامان کی آمد و رفت کا صرف ایک فیصد متاثر ہوتا ہے جبکہ مسافروں کی آمد و رفت کا سلسلہ متاثر نہیں ہوتا۔

تبصرے (0) بند ہیں