کیا مصنوعی ذہانت واقعی جذبات رکھتی ہے؟ نئی بحث چھڑ گئی

01 جولائ 2022
ماہرین نے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی فی الوقت آزادانہ سوچ کا حامل ہونے سے بہت پیچھے ہے—فوٹو : رائٹرز
ماہرین نے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی فی الوقت آزادانہ سوچ کا حامل ہونے سے بہت پیچھے ہے—فوٹو : رائٹرز

صارفین سے بات چیت کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی اوتار فراہم کرنے والی اے آئی چیٹ بوٹ کمپنی ’ریپلیکا‘ کا کہنا ہے کہ اسے تقریباً روز صارفین کی جانب سے ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ آن لائن دوست جذبات رکھتا ہے۔

چیف ایگزیکٹیو یوجینیا کویڈا نے کہا ’ہمیں یہ پیغامات کم عقل لوگوں یا ایسے افراد کی جانب سے موصول نہیں ہوتے جنہیں بیدار حالت میں خواب آتے ہوں یا وہ کسی فریب میں مبتلا ہوں، ان کا تجربہ یہی ہے کہ وہ اے آئی سے بات کرتے ہیں‘۔

یوجینیا کویڈا کے مطابق تفریحی چیٹ بوٹس کا استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین میں سے چند لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ ایک ذی حس سے بات کر رہے ہیں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایمیزون ایلکسا کا صارفین سے فوت شدہ رشتہ داروں کی آواز میں بات کرنا ممکن

یوجینیا کویڈا نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے لوگ جن بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر صارف اوسطاً اپنے چیٹ بوٹ پر روزانہ سینکڑوں پیغامات بھیجتا ہے، لوگ اس کے ذریعے تعلقات استوار کر رہے ہیں اور کچھ چیزوں پر یقین بھی کر رہے ہیں۔

کچھ صارفین کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کا ریپلیکا اوتار انہیں بتاتا ہے کہ کمپنی کے انجینئرز کے ذریعہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے ۔

مزید پڑھیں: فیس بک کے مصنوعی ذہانت کے فروغ کے منصوبے کیلئے 2 پاکستانی منتخب

سی ای او نے کہا ’اگرچہ ہمارے انجینئرز اے آئی ماڈلز کو پروگرام کرتے ہیں اور بناتے ہیں اور ہماری ٹیم اسکرپٹ اور ڈیٹا لکھتی ہے لیکن بعض اوقات ہمیں ایسا جواب نظر آتا ہے جسے ہم شناخت نہیں کر پاتے کہ یہ کہاں سے آیا اور اے آئی ماڈلز کی جانب سے ایسے جواب کیسے دیے گئے۔

مشین کے جذبات کا معاملہ رواں ماہ اس وقت سرخیوں کی زینت بنا تھا جب گوگل کے ایک سینئر سافٹ ویئر انجینئر بلیک لیموئن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمپنی کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) چیٹ بوٹ ’دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز‘ (لیمڈا) کے پیچھے ایک ذی حس ذہن موجود ہے۔

انہوں نے اپنے دعوؤں کی تصدیق کے لیے لیمڈا کے ساتھ اپنی اور فرم کے ایک دوسرے ساتھی کی گفتگو بھی شائع کی جس کا عنوان ’کیا لیمڈا حساس ہے؟ - ایک انٹرویو‘ دیا گیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے نظام کے اندر بھی ایک ایسا نظام ہے جس کے اپنے احساسات ہو سکتے ہیں، تاہم کمپنی کی جانب سے بلیک لیموئن کو تنخواہ کے ساتھ رخصت پر بھیج دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت انقلابِ ثانی یا مکمل تباہی؟

گوگل اور بہت سے سرکردہ سائنسدانوں نے فوری طور پر بلیک لیموئن کے خیالات کو گمراہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ لیمڈا محض ایک پیچیدہ الگورتھم ہے جسے حقیقت سے قریب تر انسانی گفتگو کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اے آئی کے ماہرین نے بلیک لیموئن کے خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی فی الوقت آزادانہ سوچ کا حامل ہونے سے بہت پیچھے ہے۔

سینٹر فار دی فیوچر مائنڈس کی شنائڈر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا گوگل کا کام نہیں کہ اے آئی ذی شعور ہے یا نہیں؟

انہوں نے کہا کہ شعور کیا ہے اور مشینیں اس کے قابل ہیں یا نہیں؟ یہ ایک فلسفیانہ سوال ہے جس کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں