معروف سیریز ’فرینڈز‘ میں متنوع کردار نہ دکھانے پر شریک تخلیق کار شرمندہ

01 جولائ 2022
شریک تخلیق کار نے بالآخر طویل عرصے سے جاری تنقید کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے—فوٹو : وارنز بروز/رائٹرز
شریک تخلیق کار نے بالآخر طویل عرصے سے جاری تنقید کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے—فوٹو : وارنز بروز/رائٹرز

مشہور زمانہ امریکی سٹ کوم سیریز ’فرینڈز‘ کی شریک تخلیق کار مارٹا کافمین نے سیریز میں متنوع کردار نہ دکھانے پر حال ہی میں شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔

’فرینڈز‘ دراصل 1994 سے 2004 تک امریکی ٹی وی پر نشر ہونے والی مشہور سیریز ہے جس نے مزاح کے حوالے سے دنیا بھر میں خصوصی شہرت حاصل کی تھی، مذکورہ سیریز میں کرداروں کو مخصوص جگہوں پر دکھایا جاتا تھا۔

سٹ کوم ایسی سیریز کہا جاتا ہے جس میں کچھ مخصوص کردار ہوتے ہیں اور وہ مخصوص جگہوں پر ہی اداکاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملالہ یوسف زئی 'فرینڈز ری یونین' میں بطور مہمان شرکت کریں گی

’فرینڈز‘ سیریز میں جینیفر اینسٹن، کورٹنی کوکس، لیزا کوڈرو، ڈیوڈ شیویمر، میٹ لیبلانک اور میتھیو پیری سمیت 6 مرکزی اداکار تھے، تاہم ان کے ساتھ بعض مرتبہ مہمان اداکار بھی دکھائی دیتے تھے۔

کامیاب سیریز کو ختم ہوئے ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد بھی سیریز میں متنوع کرداروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، شریک تخلیق کار نے اب بالآخر اس تنقید کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مارٹا کافمین نے شو میں متنوع کردار نہ دکھانے پر معذرت اور ازالے کے طور پر برینڈیز یونیورسٹی کے افریقی اور امریکن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کو 40 لاکھ ڈالر عطیہ کرنے کا عہد کیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ہمیشہ سے ونڈر وومن بننے کی خواہاں تھی'

ڈیوڈ کرین کے ہمراہ 1994 سے 2004 تک یہ ہِٹ سیریز بنانے والی 65 سالہ شریک تخلیق کار نے کہا ’مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ فرینڈز میں مکمل کاسٹ سفید فام تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ 20 سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے، جرم کو تسلیم کرنا اور قبول کرنا آسان نہیں ہے، اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنا تکلیف دہ ہے، میں شرمندہ ہوں کہ میں 25 سال پہلے ان پہلوؤں سے ناواقف تھی۔

مارٹا کافمین نے کہا کہ وہ سیریز میں متنوع کردار نے دکھانے پر مداحوں کی جانب سے تنقید کو سمجھ نہیں پاتی تھیں لیکن اب انہیں اس کا اندازہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کا قتل، سابق پولیس اہلکار مجرم قرار

انہوں نے ذکر کیا کہ تنوع کے بارے میں ان کا نقطہ نظر 2020 میں پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کے قتل کو دیکھنے کے بعد بدل گیا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ مہم چلی۔

انہوں نے کہا کہ ’جارج فلائیڈ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد مجھے منظم نسل پرستی کے ایسے طریقوں کی موجودگی کا احساس ہوا جن کے بارے میں مجھے کبھی معلوم نہیں تھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے ان طریقوں کا جائزہ لینا شروع کیا جن کا میں خود حصہ رہی، میں جان گئی کہ مجھے اس بگاڑ کو بتدریج درست کرنے کی ضرورت ہے‘۔

مزید پڑھیں: جارج فلائیڈ قتل کیس: مجرم پولیس اہلکار کو 22 سال قید کی سزا

انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں اب آخرکار اس حساس موضوع کے حوالے سے جاری مباحثے میں کچھ بہتر فرق پیدا کرنے کے قابل ہوچکی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ میں آئندہ اپنی ہر پروڈکشن میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اداکار اور لکھاری اس کا حصہ بنیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں