سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے قومی سلامتی کا معاملہ عدالتی نظرثانی سے مشروط

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2022
سینیئر وکیل نے کہا کہ عام طور پر عدالتیں خارجہ پالیسی یا دفاعی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
سینیئر وکیل نے کہا کہ عام طور پر عدالتیں خارجہ پالیسی یا دفاعی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے 13 جولائی کے فیصلے نے اس بات پر روشنی ڈال کر ایک 'نیا تصور' پیش کیا ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد پر کسی پالیسی یا فیصلے پر حکومت کی جانب سے کسی بھی دفاع یا استثنیٰ پر عدالتی نظرثانی اس وقت تک لازم ہے جب تک ثبوت کے ساتھ اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے دیگر 4 ججز جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی تائید کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ 87 صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلہ کہتا ہے کہ 'یہ واضح رہے کہ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت کی قومی سلامتی کے دفاع کی حقیقت کو شواہد کے ساتھ ثابت کرنا لازمی ہے'۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر وکیل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے حساس نوعیت کی کسی بھی پالیسی پر کوئی عذر یا جواز اس وقت تک پیش نہیں کیا جا سکتا (اگر وہ شہریوں کے حقوق سے متعلق ہو یا اسے غیر آئینی سمجھا جائے) جب تک کہ حکومت دفاع کے جواز کے لیے ٹھوس وجوہات پیش نہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف کارروائی کیلئے کمیٹی تشکیل

انہوں نے کہا کہ جب بھی قومی سلامتی کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اس وقت عام طور پر عدالتیں خارجہ پالیسی یا دفاعی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں۔

سینئر وکیل فیصل صدیقی اس بات سے اتفاق کیا کہ سپریم کورٹ نے 13 جولائی کے فیصلے کے ذریعے ایک تصور پیش کیا ہے جسے انہوں نے قومی سلامتی کے حوالے سے 'محدود عدالتی نظرثانی کا تصور' قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے جیسے کیسز کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت دیگر عدالتیں عام طور پر حکومت کی جانب سے اس طرح کے دعووں کو نظر انداز کرتی ہیں اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ واضح انداز میں وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ عدالت کن بنیادوں پر مداخلت کر سکتی ہے یا نہیں کر سکتی۔

مزید پڑھیں: قاسم سوری کی یکطرفہ رولنگ کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں، سپریم کورٹ

فیصل صدیقی نے کہا کہ اب آئندہ سے حکومتوں کو اپنے دفاع میں یہ واضح کرنا پڑے گا کہ عدالت قومی سلامتی کی پناہ لے کر فیصلے میں دخل اندازی کیوں نہیں کر سکتی، اس طرح لا یعنی بنیادوں پر مبنی کسی بھی دلیل کو عدالتیں نظر انداز کر سکتی ہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل حافظ احسن احمد کھوکھر نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پاکستان میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جو بنیادی حقوق کے نفاذ کے سلسلے میں حکومتی کارروائی سے متعلق عدالتی نظرثانی کی گنجائش فراہم کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کو پابند کرے گا کہ وہ مبینہ قومی سلامتی کے معاملات میں اپنے دعوے کی حمایت میں ثبوت پیش کرے۔

یہ بھی پڑھیں: قاسم سوری نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

آئینی ماہر کے مطابق مستقبل میں حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کسی کارروائی کی حمایت میں ثبوت پیش کرکے جواز فراہم کرے کہ یہ معاملہ قومی سلامتی کے دائرے میں آتا ہے ورنہ عدالت اس پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے کر اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

قومی سلامتی کے معاملات میں مداخلت سے عدالتوں کی جانب سے احتراز برتنا لازم نہ ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے اس فیصلے میں ہاؤس آف لارڈز کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ محدود بنیادوں پر عدالتی نظرثانی جائز ہے۔

گراہم الڈس اور جان ایلڈر کی جانب سے 'درخواست برائے عدالتی نظرثانی، قانون اور عمل' کا حوالے دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو ختم کرنے کے خلاف ایک عام مفروضہ پایا جاتا ہے تاکہ عدالتی نظرثانی کو خارج کرنے کی نیت پر مبنی قانونی دفعات کو محدود کیا جاسکے۔

تاہم اس میں مزید کہا گیا کہ ' اس ابتدائی فیصلے کے علاوہ کہ آیا حکومت کا دعویٰ سچا ہے یا نہیں، حکومتی سرگرمیوں کے کچھ شعبے ایسے ہیں (خصوصاً قومی سلامتی سے متعلق) جس کی تحقیقات کے لیے عدالتیں خود کو نااہل سمجھتی ہیں، اس قسم کے غیر منصفانہ معاملے میں عدالتی جائزہ خارج از امکان نہیں لیکن بہت محدود ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں